جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے جوڈیشل ریمانڈ میں 12 نومبر تک توسیع

نیب ریاست کا نمائندہ ہے اور ریاست توہین عدالت کرنے والوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی، لطیف کھوسہ کے دلائل احتساب عدالت نے جیل میں آصف زرداری کو سہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت بارہ نومبر تک ملتوی

منگل 22 اکتوبر 2019 15:16

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس ، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2019ء) جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے جوڈیشل ریمانڈ میں 12 نومبر تک توسیع کر دی گئی۔ منگل کو کیس کی سماعت جج محمد بشیر نے کی ۔سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے آصفہ بھٹو کی توہین عدالت کی درخواست پر رپورٹ مانگی تھی، جیل حکام سے پوچھا جائے کیوں عمل نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ آصفہ بھٹو خود پیش ہونا چاہ رہی تھیں لیکن میں نے انہیں روکا۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون دیکھنا ہو گا کیا توہین عدالت ہے یا نہیں۔نیب پراسیکیوٹر کے بولنے پر لطیف کھوسہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت جیل حکام نے کی ہے، نیب کیوں بول رہا ہی لطیف کھوسہ نے کہا کہ نیب ریاست کا نمائندہ ہے اور ریاست توہین عدالت کرنے والوں کے ساتھ نہیں کھڑی ہوتی۔

(جاری ہے)

میگا منی لانڈرنگ ریفرنس پر دلائل دیتے ہوئے آصف زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آصف زرداری کو جیل میں ذاتی مشقتی فراہم کیا جائے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جیل میں سے ہی کسی قیدی کو بطور مشقتی فراہم کیا جا سکتا ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ باہر سے کسی کو لا کر جیل میں بطور مشقتی رکھ لیا جائے، قانون غیر متعلقہ افراد کو جیل میں بطور مشقتی قیدی کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔

عدالت نے جیل میں آصف زرداری کو سہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔احتساب عدالت نے آصف زرداری اور فریال تالپور کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔ پارک لین ریفرنس کی سماعت بھی 12 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔یاد رہے کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٴْس وقت اٹھایا گیا، جب مرکزی بینک کی جانب سے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

ایف آئی اے نے ایک اکاؤنٹ سے مشکوک منتقلی کا مقدمہ درج کیا جس کے بعد کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آئے جن سے مشکوک منتقلیاں کی گئیں۔معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا تو اعلیٰ عدالت نے اس کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) تشکیل دی جس نے گزشتہ برس 24 دسمبر کو عدالت عظمیٰ میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جس میں 172 افراد کے نام سامنے آئے۔

جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری اور اومنی گروپ کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے فوائد حاصل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی۔کیس میں سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے بھی تفتیش کی گئی جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی تحریری طور پر جے آئی ٹی کو اپنا جواب بھیجا ، اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔

سپریم کورٹ نے 7 جنوری 2019 کو اپنے فیصلے میں نیب کو حکم دیا کہ وہ جعلی اکاؤنٹس کی از سر نو تفتیش کرے اور 2 ماہ میں مکمل رپورٹ پیش کرے جب کہ عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ بھی نیب کو بھجو انے کا حکم دیا۔اعلیٰ عدالت نے حکم دیا کہ تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔نیب نے 7 جنوری کو ہی جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے لیے کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) تشکیل دی جس کی سربراہی ڈی جی نیب راولپنڈی کو دی گئی۔

آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے 20 مارچ کو نیب کی کمائنڈ انویسٹی گیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا۔نیب راولپنڈی نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں تین ریفرنسز تیار کر کے نیب ہیڈ کوارٹر بھجوائے اور چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹو بورڈ نے 2 اپریل کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں پہلا ریفرنس اومنی گروپ کے چیف ایگزیکٹو عبدالغنی مجید اور دیگر کے خلاف دائر کرنے کی منظوری دی۔