فاٹا،پاٹا ایکٹ متعلق کیس،صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں بنائے، اٹارنی جنرل کا اقرار

حراستی کیمپ کے قواعد میں زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا ذکر ہے پھر زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جمعہ 15 نومبر 2019 15:05

فاٹا،پاٹا ایکٹ متعلق کیس،صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2019ء) سپریم کورٹ میں فاٹا،پاٹا ایکٹ متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے اقرار کیا ہے کہ صوبائی حکومت نے حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں بنائے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 25 ویں ترمیم کے بعد حالات بہت بہتر ہو گئے، حراستی کیمپ کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے،دہشت گردوں کو کوئی اچھا نہیں کہہ سکتا، دہشت گردوں کیخلاف سختی سے نمٹنا ہوگا ۔

جمعہ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں فاٹا،پاٹا ایکٹ متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان آ صف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ دور ان سماعت اٹارنی جنرل نے کہاکہ حراستی مراکز کے قواعد پاٹا میں صوبائی حکومت نے بنائے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ قواعد میں تو زیر حراست افراد سے اہلخانہ کی ملاقات کا بھی ذکر ہے ،پھر آ پ نے زیر حراست افراد کی فہرست سربمہر لفافے میں کیوں دی ۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل نے کہاکہ زیر حراست افراد کے اہلخانہ کی تفصیلات بتائی جاتی ہے ،اہلخانہ منع کیا جاتا ہے کہ تفصیلات آ گے کسی کو فراہم نہ کریں ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ زیر حراست افراد کی تفصیلات عام نہیں کرسکتے ،زیر حراست افراد 15 روز بعد ایک خط اہلخانہ کو لکھ سکتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے قوانین کو تو دیکھ کر لگتا ہے حراست قانونی ہے ،معلوم نہیں عملی طور پر ان پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراست مراکز کے کام کے طریقہ کار سے متعلق عدالت کو ایک وڈیو بھی دکھاؤں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ لوگ میڈیا میں شکایت کیوں کرتے ہیں کہ انہیں ان کے پیاروں کا علم نہیں ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ میڈیا میں آ نے والی تمام شکایات غلط نہیں ، بعض لاپتہ افراد کا اداروں کو بھی علم نہیں ،بعض ایسے افراد بھی ہیں جنہیں فل الحال اہلخانہ سے نہیں ملواسکتے ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کیا لاپتہ افرادکمیشن کے پاس عدالت کو فراہم کردہ فہرست ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ معلومات حاصل کر کے ہی عدالت کو آ گاہ کروں گا ۔جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نائن الیون کے بعد غیر ریاستی عناصر کا لفظ سامنے آیا، غیر ریاستی عناصر کو کوئی ملک بھی تحفظ نہیں دیتا۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ امریکہ نے غیر ریاستی عناصر کے لیے گوانتاناموبے جیل بنائی، کیا اداروں کے پاس زیر حراست افراد کے غیر ریاستی عناصر ہونے کے شواہد ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ اداروں کے پاس تمام تفصیلات اور شواہد موجود ہیں، ایک حراستی مرکز میں پہلے مہینے 78 افراد کو رکھا گیا، 2 سال بعد تمام افراد کو بحالی کے بعد رہا کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا ہے، یہ جائزہ نہیں لینا کہ حراستی مراکز درست کام کر رہے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کاغذوں میں تو آپ نے بہت اچھی چیزیں دکھائی ہیں، عملی طور پر کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا الگ چیز ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ اولین ترجیح ملک کو دہشت گردی سے بچانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ حراستی مراکز ہو سکتا ہے نظریہ ضرورت کے تحت بنائے گئے ہوں، پاکستان کو دشمن ممالک نے ٹارگٹ کر رکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت نے صرف حراستی مراکز کی آئینی حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ غیر ریاستی عناصر کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہوتے۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ حراستی مراکز غیر آئینی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 25 ویں ترمیم کے بعد حالات بہت بہتر ہو گئے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد راتوں رات حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے، فوج ان افراد سے لڑ رہی جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے گھسے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیا آپ 25 ویں ترمیم کو چیلنج کر رہے ہیں، ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ تسلیم کر رہے ہیں حراستی مراکز غیر آئینی ہیں، دہشت گردوں کو کوئی اچھا نہیں کہہ سکتا، دہشت گردوں کیخلاف سختی سے نمٹنا ہوگا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ دہشتگردی سے بچنے کے لیے خاص اقدامات بھی کرنا ہوتے ہیں، حراستی مراکز کے لیے بنائے گئے رولز جیل مینول میں پہلے ہی موجود ہیں،فاٹا میں پہلے بلا واسطہ نمائندگی تھی اب برائے راست نمائندگی ہے۔

انہوںنے کہاکہ اب فاٹا کی تمام مشینری صوبوں کے ماتحت آچکی، اب ہم نے دیکھنا ہے کہ اقدامات آئین کے اندر ہیں یا نہیں، کیا اب کوئی ایسی قانون سازی ہوئی جس میں پہلے کیے گئے اقدامات کو تحفظ دیا گیا ہو۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ قانونی طور پر تو اب کوئی علاقہ پسماندہ نہیں رہا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ قانون سازی کے زریعے فاٹا اور پاٹا میں پہلے سے رائج قوانین کو جاری رکھا گیا ہے، 25 ویں ترمیم کے بعد قوانین جاری رکھنے کا ایکٹ لایا گیا۔

جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ آرڈیننس میں لکھا ہے شدت پسند ملک کے وفادار نہیں رہے، کیا شر پسند پہلے وفادار تھے ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ پہلے قوانین میں بھی یہی الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آرڈیننس میں شرپسندوں کیلئے miscrenants کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ڈکشنری کے مطابق مسکریننٹس کا مطلب کافر یا یقین نہ کرنے والا ہے۔

انہوںنے کہاکہ حکومت شاید آرڈیننس کے ذریعے نئی انگلش بھی ایجاد کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ لفظ تو فسادی کا بھی استعمال ہوتا رہا ہے ،بظاہر صرف فاٹا ہی صوبے میں ضم ہوا پاٹا برقرار ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاٹا پہلے بھی صوبے کا حصہ تھا صرف انتظامی کنٹرول گورنر کے پاس ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ فاٹا اور پاٹا کو اِنکم اور سیلز ٹیکس سے استثنیٰ حاصل تھا، اگر سابقہ قوانین جاری ہیں تو ٹیکس بھی لاگو نہیں ہو سکتا۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ فاٹا کو ٹیکس استثنیٰ اب بھی دیا گیا ہے، صرف پہلے سے رائج قوانین کو ہی جاری رکھا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ٹیکس استثنیٰ کے حوالے سے کوئی قانون رائج نہیں تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایکشن ان ایڈ آف سول پاور آرڈیننس ایکٹ 2019 کی معیاد پوری ہو چکی،ممکن ہے فساد ختم ہوگیا ہو لیکن شدت پسند باقی ہوں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر پہلے سے رائج قوانین جاری تھے تو نئے آرڈیننس کی کیا ضرورت تھی ۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ بظاہر 2019 کے آرڈیننس کی ضرورت نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر فوج کی موجودگی برقرار رکھنا مقصد تھا تو فوج پہلے سے موجود تھی، 2019 کے آرڈیننس کے مطابق فوج قانون کے مطابق آپریشن کری گی۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا فوج اس سے پہلے قانون کیخلاف آپریشن کر رہی تھی ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ فوج کے اقدامات پہلے سے رائج قانون کے مطابق تھے ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ تین دن سے پوچھ رہے ہیں نئے آرڈیننس کی کیا وجہ تھی، بظاہر 2019 کے آرڈیننس سے پہلے سے رائج تمام قوانین ختم ہوگئے۔چیف جسٹس نے کہاکہ قوانین ختم کرنے والا آرڈیننس خود ہی ختم ہوگیا ، اگر تمام قوانین ختم ہو چکے تو حکومت کو ڈو مور کرنا ہوگا ۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ 2019 کے آرڈیننس نے پہلے سے رائج قوانین کی توثیق کی ، آرڈیننس کے ذریعے کسی قانون کو ختم نہیں کیا گیا ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بتایا جائے 2019 کا آرڈیننس لانے کی وجہ کیا تھی ٹھوس وجہ سامنے نہ آئی تو گڑبڑ ہوجائے گی۔ بعد ازاں کیس کی سماعت بدھ تک ملتوی کر دی گئی ۔