سندھ ہائی کورٹ نے آغا سراج درانی اور دیگر کی درخواست ضمانت پر نیب پراسیکیوٹر سے دلائل طلب کرلئے

پیر 18 نومبر 2019 19:08

سندھ ہائی کورٹ نے آغا سراج درانی اور دیگر کی درخواست ضمانت پر نیب پراسیکیوٹر ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2019ء) سندھ ہائیکورٹ نے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور دیگر کی درخواست ضمانت پر ملزمان کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر نیب پراسیکیوٹر سے دلائل طلب کرلیئے۔ جسٹس عمر سیال اور جسٹس ذولفقار علی سانگی پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اور دیگر کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اس کیس میں ذوالفقار کا کیا رول ہی نیب حکام نے بتایا کہ ذوالفقار سرکاری ملازم ہے مگر کام آغا سراج درانی کیلیے کرتا ہے۔ آغا سراج درانی کے ملازم کے نام پر 5 کروڑ کے پے آرڈرز جاری ہوئے تھے۔ ان تمام پے آرڈرز سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے بچوں کی فیس اور فلیٹ خریدے گئے تھے۔

(جاری ہے)

دوران سماعت نیب پراسیکوٹر اور ملزم کے وکلا کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔

جس پر عدالت نے ریماکس دیئے اگر ایسا ہی چلا تو معاملہ حل نہیں ہوسکتا۔ اسپیکر سندھ اسمبلی کے وکیل عامر نقوی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آغا سراج درانی گرفتار ہیں۔ آغا سراج درانی کے بھائی آغا مسیح الدین عبوری ضمانت پر ہیں۔ کیس میں نامزد گلزار احمد، شکیل سومرو، ذوالفقار ڈہر و دیگر عبوری ضمانت پر ہیں۔ ایک آدمی کو سالوں تک جیل میں رکھا جاتا ہے۔

برسوں بعد پتہ چلتا ہے وہ آدمی تو بے قصور تھا۔ سب کو چور کہ دیں اس سے کرپشن ختم نہیں ہوگی۔ نیب بننے کے بعد کیا اس ملک میں کرپشن ختم ہو گئی، جائزہ تو لیا جائے۔ نیب والے ہمیشہ کہتے وائیٹ کالر کرائیم ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔ نیب والے کہتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے دنیا بول رہی ہے۔ 1999 میں یہ قانون بنا کیا کرپشن کنٹرول ہوئی آپ مقدمات بنائیں لیکن قانون کے مطابق بنائیں۔

پورا ملک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہے، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ کرپشن کہاں نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نیب تحقیقات کیسے کررہی ہے۔ جس زمین کا ذکر نیب کررہی ہے وہاں تو کبھی یہ گئے بھی نہیں۔ آغا سراج درانی کے فرنٹ مین گلزار کے وکیل نعیم ملک نے دلائل میں کہا کہ میرے موکل کا نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی نام ہے۔ان کی مالی حیثیت آغا سراج درانی سے زیادہ ہے،۔

میرے موکل رحمت شیریں کے مالک ہیں جس کے نہ صرف ملک بلکہ بیرون ملک بھی برانچس ہیں۔ جسٹس عمر سیال نے آغا مسیح سے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کتنی ملکیت ہے اور آمدن کیا ہی آغا مسیح نے بتایا کہ ہماری کل 7 ہزار ایکڑ زمین ہے جو ہمارے آبا اجداد کی ہے۔ زمین کے ساتھ پیٹرول پمپ، گھر و دیگر ملکیت بھی ہے۔ سب ملکیت نام سے ہیں کوئی بے نامی جائیداد نہیں۔

ہم سے جو نیب نے پوچھا ہم نے وہ تحریر کرکے دیا ہے۔ نیب نے کبھی بھی ہماری زمینوں کا یا فیکٹری پیٹرولیم پمپ کا دورہ تک نہیں کیا۔ آغا مسیح کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ یہ 7 ہزار ایکڑ جائیداد تمام بھائیوں اور خاندان کے نام ہے۔ زمینوں سے آمدن آتی ہے دکانیں ہیں۔ گڑھی یاسین میں 4 سو گھر کرائے پر ہیں اور 3 سو ایکڑ پر فش فارم ہے۔ پچوں کے نام پر 2 ، 2 ہزار ایکڑ زمین ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ لوگوں نے کاغذات پہلے کیوں نہیں دیئے۔ آغا مسیح نے بتایا کہ ہم نے سب کچھ دیا ہے، انہوں نے تو کسی سے تفتیش ہی نہیں کی۔ عدالت نے نیب پراسیکیوشن پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریماکس دیئے آپ لوگ پہلے سپریم کورٹ کے فیصلے پڑھیں۔ فیصلے پڑھ کر آئیں پھر دلائل دیں۔ تمام ملزموں کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے 25 نومبر کو نیب پراسیکیوٹر سے دلائل طلب کرلیے۔