افغانستان میں امن ہوگا تو پورے ایشیاء میں امن ہوگا،اگر افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پورے ایشیاء میں انتشار ہوگا، وزیر خارجہ

امن ومفاہمت کے حوالے سے ہمیشہ کی طرح پاکستان افغانوں کی قیادت میں ان کے اپنے تجویز کردہ حل کا حامی ہے،مذاکرات کی حالیہ بحالی مثبت پیش رفت ہے جس سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن واستحکام کی راہ ہموار ہوگی،امید ہے مستحکم اور محفوظ افغانستان کے قیام کیلئے یکساں ہدف کو پالیں گے،زراعت کے شعبے میں تعاون کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کے ضمن میں پہل کرنے والے ملک کے طورپر پاکستان ریجنل ٹیکنیکل گروپ کے اجلاس کی 2020کی پہلی سہہ ماہی میں میزبانی کرے گا، شاہ محمود قریشی کا تقریب سے خطاب

پیر 9 دسمبر 2019 23:45

افغانستان میں امن ہوگا تو پورے ایشیاء میں امن ہوگا،اگر افغانستان میں ..
استنبول (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن ہوگا تو پورے ایشیاء میں امن ہوگا،اگر افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پورے ایشیاء میں انتشار ہوگا، امن ومفاہمت کے حوالے سے ہمیشہ کی طرح پاکستان افغانوں کی قیادت میں ان کے اپنے تجویز کردہ حل کا حامی ہے،مذاکرات کی حالیہ بحالی مثبت پیش رفت ہے جس سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن واستحکام کی راہ ہموار ہوگی،امید ہے مستحکم اور محفوظ افغانستان کے قیام کیلئے یکساں ہدف کو پالیں گے،زراعت کے شعبے میں تعاون کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کے ضمن میں پہل کرنے والے ملک کے طورپر پاکستان ریجنل ٹیکنیکل گروپ کے اجلاس کی 2020کی پہلی سہہ ماہی میں میزبانی کرے گا۔

پیر کو وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ہارٹ آف ایشیاء آٹھویں وزارتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں اپنی معروضات کے آغاز سے قبل اس اہم کانفرنس کے دونوں شریک چیئرمین کو خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔

(جاری ہے)

پرتپاک میزبانی اوربہترین انتظامات پر میں خاص طورپربرادر حکومت ترکی کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میرے لئے ایک بار پھر استنبول جیسے خوبصورت اور پرکشش شہر آمد بڑی مسرت کا باعث ہے جہاں مشرق اور مغرب کا میلاپ ہوتا ہے۔

انہوںنے کہاکہ یہ امر حوصلہ افزائی کا باعث ہے کہ استنبول عمل کاآغاز 2011ء میں ترکی اور افغانستان نے مشترکہ طورپر کیا تھا جو افغانستان کے معاملے پر کثیرالجہتی طریقہ ہائے کار کا کلیدی حصہ بن چکا ہے۔ مختصر مدت میں اس عمل نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے اور تقویت پائی ہے۔ انہوںنے کہاکہ اس سمت میں آگے بڑھتے ہوئے مجھے اعتماد ہے کہ ہم مستحکم اور محفوظ افغانستان کے قیام کے لئے اس یکساں ہدف کو پالیں گے جو خطے کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لئے ناگزیر ہے۔

انہوںنے کہاکہ افغانستان کی اہمیت شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؐ کے اشعار میں دئیے گئے پیغام سے بھی عیاں ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ایشیاء ایک جسم کی مانند ہے جو پانی اور مٹی سے وجود میں آیا اور افغانستان اس جسم میں ایک دل کی حیثیت رکھتا ہے، اگر افغانستان میں امن ہوگا تو پورے ایشیاء میں امن ہوگا۔ اگر افغانستان میں بدامنی ہوگی تو پورے ایشیاء میں انتشار ہوگا۔

‘‘ سوسال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی وقت اور حالات علامہ اقبال کی بصیرت افروزی اوران کے قول کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ عالمی برادری میں کوئی اور قوم یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ تاریخی طورپر وہ مضبوط تعلق افغانستان کے ساتھ رکھتی ہے جو پاکستان کا ہے۔ نہ ہی دنیا میں کوئی اور ایسا ملک ہوسکتا ہے جو افغانستان میں امن، استحکام اور خوشحالی کا پاکستان سے زیادہ متمنی اور خواہاں ہوگا۔

انہوںنے کہاکہ دونوں ممالک میں جغرافیہ، مشترک عقیدہ ومذہب، ثقافت اور لسانی ہم آہنگی کے مضبوط اور نہ اٹوٹ رشتے استوار ہیں۔ پاکستان افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی و معاشی اوراقتصادی شراکت دار ہے۔ہمیں تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی گذشتہ چالیس سال سے زائد عرصہ سے مہمان نوازی کا اعزاز حاصل ہے۔ ہم ان مہاجرین کی حفاظت اور عزت وتکریم سے اپنے گھروں کورضاکارانہ واپسی کے متمنی ہیں۔

دس لاکھ سے زائد افغان سالانہ پاکستان افغانستان سرحد عبور کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ فطری طورپر اتنے قریبی روابط کی موجودگی میں افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے بعض مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں چند ایک ہیں میں افغانستان سے بدامنی کا پاکستان میں داخل ہونا ،منشیات فروشوں اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان گٹھ جوڑ،خطے کو باہم جوڑنے کے منصوبہ جات کو عملی شکل دینے کے عمل کا فقدان شامل ہے ۔

انہوںنے کہاکہ مسائل سے قطع نظر پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تمام شعبہ جات میں تعلقات کی مضبوطی اور گہرائی ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ تجارت اور معاشی تعلقات میں اضافہ ہو، عوامی سطح پر دونوں ممالک کے درمیان رابطوں کو بڑھایاجائے اور خطے میں رابطوں کا فروغ ہو۔ طورخم کراسنگ پوائنٹ کا چوبیس گھنٹے کے لئے کھل جانا ہماری سوچ اور اس واضح مقصدکے حصول کے لئے واضح اظہار ہے کہ ہم افغانستان میں امن اور ترقی کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کی طرف سے افغانستان میں تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر کی ترقی اور تعمیر نو کے لئے ایک ارب امریکی ڈالر سے زائد کی کمٹمنٹ اہمیت کی حامل ہے۔افغانستان، پاکستان ایکشن پلان برائے امن وبھائی چارہ (اے پی اے پی پی ایس) ایک نہایت مفید پلیٹ فارم ہے جس سے دونوں ممالک باہمی مفاد اور تشویش کا باعث بننے والے تمام معاملات ادارہ جاتی فریم ورک کے اندر حل کرسکتا ہے۔

’ اے پی اے پی پی ایس ‘کا آئندہ اجلاس کابل میں ہونا ہے۔ علاقائی تناظر میں سات ستمبر 2019ء کو اسلام آباد میں ہم نے تیسرے چین، افغانستان، پاکستان وزرائے خارجہ ڈائیلاگ کی میزبانی کی۔ انہوںنے کہاکہ سہہ ملکی فارمیٹ سے ہمارے درمیان روابط کو مزید گہرا بنانے میں مدد ملی۔ چند ہی ماہ میں ہم مشترکہ جونئیر ڈپلومیٹ تربیتی کورس کا انعقاد کرنے میں کامیاب ہوئے۔

یہ تربیتی کورس فارن سروس اکیڈمی اسلام آباد میں منعقد ہوا، اس کے علاوہ انڈر 19 کرکٹ ٹونامنٹ منعقد ہوا اور سہہ ملکی انسداد دہشت گردی ورکشاپ بیجنگ میں منعقد ہوئی۔انہوںنے کہاکہ امن ومفاہمت کے حوالے سے ہمیشہ کی طرح پاکستان افغانوں کی قیادت میں ان کے اپنے تجویز کردہ حل کا حامی ہے۔ یہ امر باعث خوشی ہے کہ عالمی برادری نے اس ضمن میں پاکستان کے دیرینہ موقف کوتسلیم کیا ہے۔

ہم نے ہمیشہ زوردیا ہے کہ افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ ہماری نظر میں اس مسئلے کا واحد حل بات چیت کے ذریعے سیاسی تصفیہ ہے۔ طاقت کے استعمال کی سوچ عام افغانوں کے دکھوں کو مزید بڑھانے کے مترادف ہے۔ مسئلے کی؛ پرامن تصفیے کی سوچ کی ہم پرزور حمایت کرتے ہیں اور ہم نے امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات میں سہولت کاری کی۔ پاکستان نے پروفیسر کیون کنگ اور پروفیسر ٹیموتھی ویکس کی رہائی کی کوششوں کی بھی حمایت کی اور ہمیں خوشی ہے کہ بالآخر وہ محفوظ ہیں اور اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہمیں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں عارضی تعطل پرسخت تشویش رہی، پاکستان صدر ٹرمپ کے افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے لئے بیان کا بھرپور خیرمقدم کرتا ہے جس میں طالبان سے مذاکرات کی بحالی بھی شامل ہے۔ مذاکرات کی حالیہ بحالی مثبت پیش رفت ہے جس سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن واستحکام کی راہ ہموار ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ ہم امن عمل کے نتیجے میں بین الافغان جامع مذاکرات کے خواہاں ہیں۔

پاکستان تمام فریقین، علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کوششیں جاری رکھے گا تاکہ سیاسی تصفیہ ممکن ہو اور تمام افغانوں کے مفادات اور تحفظات کا اطمنان بخش حل میسرآسکے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں ’شرپسندوں‘ کے کردار سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا جن کے اپنے مفادات ہیں۔ افغانستان میں سیاسی تصفیہ کے ذریعے وسیع البنیاد عالمی اور علاقائی اتفاق رائے ایک منفرد مثال ہے۔

اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ اس کانفرنس کی توجہ کا بنیادی محور ’’امن، شراکت داری، خوشحالی‘‘ ہے جوہماری دانست میں نہایت موزوں موضوع ہے۔ یہ تینوں اجزاء افغانستان میں پائیدار امن، سلامتی اور استحکام کے لئے ناگزیر ہیں۔ یہ امر بھی نہایت ضروری ہے کہ ان تینوں اجزاء کا باہم ایک دوسرے پر انحصار ہے اور یہ سب مل کر ہی ایک دوسرے کی تنفیذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

خوشحالی کے بغیر امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا اور خوشحالی شراکت داری کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ ہم سب کو افغانستان اور خطے کی خاطر طے کردہ اہداف کے حصول کے لئے متحد ہونا ہوگا۔ ٹرانسپورٹ، کمیونیکیشن اور توانائی کے منصوبہ جات کے ذریعے عملی رابطوں کو ترجیح بنانے پر بھی ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے،اس ضمن میں طریقہ کار، ضابطوں، قوانین اور معاہدات کو سہل بنانا ہوگا تاکہ تجارت اور ٹرانزٹ کے شعبہ جات میں سہولتیں میسرآنے سے اشیاء اور خدمات کی فراہمی آسان ہوسکے۔

انہوںنے کہاکہ میں اپنی بات اس امید کے ساتھ ختم کرنا چاہوں گاکہ افغانستان کے لئے امن اور استحکام کا راستہ متقاضی ہے کہ تعاون اور تعمیری انداز اپنا کر آگے بڑھا جائے۔ انہوںنے کہاکہ مشترکہ اعلامیہ، ورکنگ گائیڈ لائنز اور اعتماد سازی کے سات اقدامات پر عمل درآمد کا پلان سب ہی جامع دستاویزات ہیں۔ یہ شراکت دار ممالک کے عزم کا مظہر ہیں جبکہ عالمی تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔

ہم انہیں حتمی شکل دینے میں کی جانے والی مشقت ومحنت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ زراعت کے شعبے میں تعاون کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کے ضمن میں پہل کرنے والے ملک کے طورپر پاکستان ریجنل ٹیکنیکل گروپ کے اجلاس کی 2020کی پہلی سہہ ماہی میں میزبانی کرے گا۔ انہوںنے کہاکہ آئیے ہم سب مل کر افغانستان میں امن، ترقی اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف کے حصول کے لئے آگے بڑھیں۔