خطے میں مزید بڑی شخصیات کا قتل ہوسکتا ہے

تحمل کا مظاہرہ نہ کیا تو ساراخطہ بحران کی زد میں آسکتاہے، حوثی پھر فائدہ اٹھا کر دوست ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں، حزب اللہ تنظیم جذباتی باتیں کر رہی ہے ، اسرائیل پر حزب اللہ کاحملہ اور اس کا رد عمل بھی ہوسکتاہے، خدشہ ہے پاکستان اور اطراف میں دہشتگرد حملے بڑھ سکتے ہیں: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی

muhammad ali محمد علی پیر 6 جنوری 2020 23:50

خطے میں مزید بڑی شخصیات کا قتل ہوسکتا ہے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 06 جنوری2020ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ خطے میں مزید بڑی شخصیات کا قتل ہوسکتا ہے، تحمل کا مظاہرہ نہ کیا تو ساراخطہ بحران کی زد میں آسکتاہے، حوثی پھر فائدہ اٹھا کر دوست ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں، حزب اللہ تنظیم جذباتی باتیں کر رہی ہے ، اسرائیل پر حزب اللہ کاحملہ اور اس کا رد عمل بھی ہوسکتاہے، خدشہ ہے پاکستان اور اطراف میں دہشتگرد حملے بڑھ سکتے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق پیر کے روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اب خطے میں مزید بڑی شخصیات کا قتل ہوسکتا ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا اور ایران دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

(جاری ہے)

اگر تحمل کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر ساراخطہ بحران کی زد میں آسکتاہے۔

حوثی پھر فائدہ اٹھا کر دوست ملک کو نشانہ بنا سکتے ہیں جس کے بعد معاملات کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ دوسری جانب حزب اللہ تنظیم جذباتی باتیں کر رہی ہے۔ اسرائیل پر حزب اللہ کاحملہ اور اس کا رد عمل بھی ہوسکتاہے اور خدشہ ہے پاکستان اور اطراف میں دہشتگرد حملے بڑھ سکتے ہیں۔ یہ خطہ عرصہ دراز سے کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خطہ میں بہت سے مسائل حل طلب ہیں، ان کے حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی جس سے مسائل بڑھے ہیں، یہ خطہ امن واستحکام سے پیدا ہونے والی خوشحالی سے محروم رہا ہے۔

اس تناظر میں آج کے حالات سے نئے تنائو اور کشیدگی نے جنم لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 27 دسمبر کو عراق کے بیس پر راکٹ حملے میں ایک امریکی کنٹریکٹر ہلاک ہوا اور امریکی عملہ کے دو اہلکار زخمی ہوئے، 29 دسمبر کو امریکی ردعمل میں امریکیوں پر حملہ کرنے والی ملیشیاء کے 25 افراد جاں بحق اور 25 سے زائد زخمی ہوئے جس کے بعد بغداد میں امریکی سفارتخانہ کے سامنے احتجاج کیا گیا اور جلائو گھیرائو کیا گیا، یکم جنوری 2020ء کو امریکہ نے اس احتجاج کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا اور ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس واقعہ کا منصوبہ ساز اور ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔

3 جنوری کو جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملہ کیا گیا جس میں ان سمیت عراق کی مقامی ملیشیاء کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور دیگر 9 افراد جاں بحق ہوئے۔ وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ تشویشناک صورتحال ہے، ماہرین کہہ رہے ہیں کہ 2011ء میں اسامہ پر حملے اور 2019ء پر داعش کے سربراہ اور ابو بکر البغدادی پر حملے سے بھی زیادہ اس واقعہ کے سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس واقعہ سے یہ خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہوا ہے، عراق اور شام میں عدم استحکام کے امکانات بڑھے ہیں۔ آبنائے ہرمز کو بلاک کیا جا سکتا ہے جس سے تیل کی رسد متاثر ہو گی، اس سے پاکستان اور ہماری معیشت بھی متاثر ہو گی۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ حالیہ واقعہ پر پاکستان کے موقف میں کوئی ابہام نہیں، پاکستان سمجھتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں اگر کوئی ایسا ردعمل آتا ہے جس سے خطے کا امن و استحکام متاثر ہوتا ہے، یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں کیونکہ ایسے واقعات سے ہمارے اپنے قومی اقتصادی ایجنڈے پر توجہ متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کسی یکطرفہ اقدام کی حمایت نہیں کرتا، طاقت کا استعمال کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے منشور میں خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے حوالے سے طے شدہ اصولوں کی پاسداری کو اولیت دیتا ہے، موجودہ صورتحال میں تمام فریقوں کو صبر و تحمل کا اظہار کرنا چاہیے، ایران کے دکھ کا اندازہ ہے لیکن اس پر واضح کر دیا ہے کہ اسے ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہیے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو۔

اس معاملے کو سفارتی طریقہ اور عالمی قوانین کے مطابق حل کیا جائے، یہ خطہ کسی نئی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ جنگ کے پاکستان سمیت پورے خطے پر بھیانک اثرات مرتب ہوں گے، پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، پاکستان کسی علاقائی تنازعہ کا حصہ دار نہیں بنے گا۔