حامد میر پاک بنگلا سیریز پر بھی چپ نہ رہ سکے

جانتا ہوں بنگلا دیش سے معافی ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن قومیں مشکل فیصلے کرکے آگے بڑھتی ہیں: سینئر صحافی

Zeeshan Mehtab ذیشان مہتاب پیر 27 جنوری 2020 14:41

حامد میر پاک بنگلا سیریز پر بھی چپ نہ رہ سکے
لاہور(اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 27جنوری 2020ء ) سینئر صحافی حامدمیر نے بنگلا دیشی ٹیم کے دورے پاکستان پر آنے پر اس کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا ہے کہ 25جنوری کو انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں مشرف زیدی نے اپنے کالم میں تجویز دی ہے کہ 1971ءکی تلخیوں کو فراموش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے بنگلا دیش کے عوام سے معافی مانگ لی جائے۔

ذرا سوچئے! کیا معافی مانگنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟انہوں نے لکھا کہ میں جانتا ہوں بنگلا دیش سے معافی ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن قومیں مشکل فیصلے کرکے آگے بڑھتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان آنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ بنگلہ دیش نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور مشکل وقت میں مدد کرنیوالوں کا کھلے دل سے اور بلند آواز میں شکریہ ادا کرنا ہر سچے پاکستانی کا فرض ہے۔

(جاری ہے)

‘حامد میر نے اپنے کالم کاآغاز کچھ یوں کیا ’مشکل وقت میں دوست اور دشمن کی اصلیت سامنے آ جاتی ہے، کچھ لوگ آپ سے ہمیشہ دوستی کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اندر ہی اندر حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں جب کبھی آپ پر مشکل وقت آ جائے تو پیچھے سے وار کر دیتے ہیں۔حامد میر نے لکھاکہ’کچھ لوگوں کو آپ ہمیشہ اپنا دشمن سمجھتے رہتے ہیں اور ان کے بارے میں اکثر غلط فہمیوں کا شکار رہتے ہیں لیکن مشکل وقت میں وہ آپ کی مدد کو آتے ہیں، مشکل وقت میں مدد کو آنے والوں کا بلند آواز میں شکریہ ادا کرنا چاہئے،آج میں بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، بنگلہ دیش کی حکومت نے ایک ایسے وقت میں اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجا جب بھارت دنیا بھر میں پاکستان کو دہشتگرد ملک ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور مودی حکومت کی کوشش ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) پاکستان کو گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں دھکیل دے۔

‘حامد کے مطابق ’بھارت نے بہت کوشش کی کہ بنگلہ دیش اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نہ بھیجے، پاکستان میں بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بنگلا دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نئی دہلی کے حکم پر اپنی ٹیم کو پاکستان نہیں جانے دیںگی لیکن انہوں نے اپنی ٹیم کو تین ٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز کیلئے پاکستان بھیج دیا۔‘پاکستان نے یہ سیریز جیت لی اور بنگلہ دیشیوں نے اہلِ پاکستان کے دل جیت لیے، قذافی سٹیڈیم میں دوسرا ٹی ٹونٹی ختم ہونے کے بعد نجی ٹی وی کے رپورٹر عدنان ملک تماشائیوں سے بات چیت کر رہے تھے تو ایک بچے نے بڑی معصومیت سے کہا کہ میں پاکستان کے جیتنے پر خوش ہوں لیکن اگر بنگلہ دیش کی ٹیم جیت جاتی تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی۔

‘حامد میر لکھتے ہیں کہ ’یہ بچہ ان بزرگوں سے زیادہ دانشمند نظر آیا جو آج بھی بنگلہ دیش کا ذکر دشمنوں کے طور پر کرتے ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو آج بھی ماضی میں زندہ ہیں اور نفرتوں کی آگ میں جلنے جلانے کو ہی قومی غیرت سمجھتے ہیں لیکن نئی نسل اِن نفرتوں کو محبتوں میں بدلنا چاہتی ہے۔‘حامد میرکے مطابق ’پاکستان میں کچھ لوگ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو دی جانیوالی سزاﺅں کی بہت مذمت کرتے ہیں لیکن کیا پاکستان نے کبھی ایسے حالات پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی کہ بنگلا دیش میں پاکستان کے حامیوں پر مقدمے چلانے کے بجائے پاکستان سے دوستی کی ضرورت پر غور کیا جائے؟‘،بنگلہ دیش کے لوگ اتنے ہی برے ہیں کہ ان سے دوستی کی بات آپکی غیرت کو گوارا نہیں تو پھر آپ بنگلہ دیشیوں کو بار بار پاکستان آکر کرکٹ سیریز کھیلنے کی دعوت کیوں دیتے ہیں؟بنگلہ دیش کی حکومت کے لئے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنا آسان فیصلہ نہیں تھا۔

جس طرح پاکستان میں بنگالیوں سے نفرت کو کچھ اپنی قومی غیرت کے لئے بڑا ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح بنگلا دیش میں بھی پاکستان سے نفرت کرنیوالوں کمی نہیں۔‘اچھا ہوا کہ 1971ءمیں گرنے والے خون کے دھبوں کو دھونے کیلئے 25جنوری 2020ءکو قذافی سٹیڈیم میں کچھ پاکستانی نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں میں بنگلہ دیش کے پرچم اٹھا کر لہرائے اور یہ پیغام دیا کہ میچ میں پاکستان جیتے یابنگلہ دیش لیکن ہمارے لئے یہ جیت کسی ملک کی نہیں بلکہ دوستی اور امن کی جیت ہے۔

حامد لکھتے ہیں کہ ’ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ 2019ءمیں مقبوضہ کشمیر جموں و کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک ناراض کشمیری نوجوان کے فدائی حملے میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے40جوانوں کی ہلاکت کے بعد انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ نے پاکستان کرکٹ ٹیم پر پابندی لگوانے کی بھرپور کوشش کی۔‘حامد کے مطابق ’انڈین کرکٹ کنٹرول بورڈ کوایک کمیٹی آف ایڈمنسٹریٹرز چلاتی ہے جس کے سربراہ ونود رائے نے کھلم کھلا یہ اعلان کیا کہ جس طرح جنوبی افریقہ کی سابق نسل پرست حکومت کی پالیسیوں کیخلاف جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم پر 1970ءسے 1991ءتک انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد رہی اسی طرح پاکستان کی کرکٹ ٹیم پر پابندی لگوانے کیلئے کوشش کی جائے گی۔

بھارت میں اس مطالبے نے بھی زور پکڑا کہ 2019ءکے ورلڈ کپ میں بھارت کی ٹیم پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے انکار کردے۔ بھارت کی حکومت نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے سربراہ ششانک منوہر کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جو انڈین کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں لیکن ششانک منوہر اس معاملے سے دور رہے اور پاکستان پر پابندی کی سازش کا حصہ نہ بنے۔‘سینئر صحافی نے مزید لکھا کہ ’2009ءمیں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو چکی تھی۔

2015ء میں بڑی مشکل سے زمبابوے کی کرکٹ ٹیم کو ایک روزہ میچوں کی سیریز کیلئے لاہور آنے پرآمادہ کیا گیا۔ سٹیڈیم میں تو امن رہا لیکن سٹیڈیم کے قریب ایک خودکش حملہ ہوگیا۔‘2018ءمیں ویسٹ انڈیز کی ٹیم تین ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے کراچی آئی اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا، پھر 2019ءکے آخر میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پاکستان میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے آئی۔

جس ٹیم پر 2009ءمیں حملہ ہوا وہی ٹیم 2019ءمیں پاکستان آئی اور یوں 10سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی پاکستان واپسی ہوئی۔ 2020ءکے پہلے مہینے میں بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان آنا بہت اہم ہے۔یاد رہے کہ25جنوری کو ”دی نیوز“ میں مشرف زیدی نے اپنے کالم میں تجویز دی ہے کہ 1971ءکی تلخیوں کو فراموش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کی حکومت کی طرف سے بنگلا دیش کے عوام سے معافی مانگ لی جائے۔

ذرا سوچئے! کیا معافی مانگنے سے پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟،یہ معافی صرف بنگلہ دیش کے لوگوں کو نہیں بلکہ ان پاکستانیوں کو بھی مطمئن کریگی جو آج بھی 1971ء کے سانحے سے رنجیدہ ہیں۔ اس معافی سے اس سوچ کو شکست دی جا سکتی ہے جو وارکرائمز کے ٹربیونلز سے پھانسیوں کے فیصلے حاصل کرکے اپنے انتقام کی آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔میں جانتا ہوں بنگلا دیش سے معافی ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن قومیں مشکل فیصلے کرکے آگے بڑھتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم کا پاکستان آنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ بنگلہ دیش نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے اور مشکل وقت میں مدد کرنے والوں کا کھلے دل سے اور بلند آواز میں شکریہ ادا کرنا ہر سچے پاکستانی کا فرض ہے‘۔