مردم شماری سے ہم اتفاق نہیں کرتے اس کے خلاف کورٹ میں گئے ہوئے ہیں، میئر کراچی

نادرا کے ریکارڈ میں بھی کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے تو مردم شماری میں اتنی کم کیسے ہو سکتی ہے،وسیم اختر

بدھ 19 فروری 2020 19:49

مردم شماری سے ہم اتفاق نہیں کرتے اس کے خلاف کورٹ میں گئے ہوئے ہیں، میئر ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 فروری2020ء) میئرکراچی وسیم اختر نے کہا ہے کہ مردم شماری سے ہم اتفاق نہیں کرتے اس کے خلاف کورٹ میں گئے ہوئے ہیں، نادرا کے ریکارڈ میں بھی کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے تو مردم شماری میں اتنی کم کیسے ہو سکتی ہے،یہ غلط ہے اس لئے اس کو نہیں مانتے، اگر مردم شماری کے اعداد و شمار ہی غلط ہوسکتے ہوںتو کراچی کے ساتھ انصاف کیسے ہوسکتا ہے، کراچی میں نفرتوں کے خاتمے کے لئے میرٹ اور انصاف بہت ضروری ہے ملک کے بڑے عہدوں پر فائز لوگ ہی اپنے فیصلوں سے کراچی میں یکجہتی پیدا کرسکتے ہیں جس سے ملک کو بھی بہت زیادہ فائدہ ہوگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنے دفتر میں سول سروسز اکیڈمی کے ڈائریکٹر عاصم اقبال کی سربراہی میں ملاقات کے لئے آنے والے زیر تربیت افسران کے ایک وفد سے ملاقات کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاسی نظام غلط ہے، جاگیردارانہ ذہنیت کے باعث سیاسی حکومتوں نے کبھی تیسری سطح کی حکومتوں کو تسلیم نہیں کیا اور اسی لئے انہوں نے کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے، موجودہ انتخابات سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق کرائے مگر اختیارات سارے اپنے پاس رکھ لئے جس سے ان انتخابات سے عوام کو فائدہ نہیں ہوا جو جمہوریت کا تقاضہ ہے، انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتیں فنڈ نیچے دینا نہیں چاہتیں یہاں تک کہ موجودہ حکومت جو پہلے اس نظام کو مضبوط کرنے کی بات کرتی تھی آج ایم این اے اور ایم پی اے کے ذریعے ہی ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم دے رہی ہے، انہوں نے کہا کہ بلدیاتی اداروں کو مضبوط کئے بغیر اور مڈل کلاس کی قیادت کے اسمبلیوں میں جانے تک اس ملک میں بہتری نہیں آ سکتی، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کی بلدیاتی امور میں مداخلت سے نظام تباہ تو ہوسکتا ہے بہتر نہیں، منتخب کونسل کی منظوری کے بغیر کوئی بھی کام قانونی نہیں ہوسکتا، کسی بھی ڈسٹرکٹ میں جو کام ہو اس کی منظوری متعلقہ ضلعی کونسل سے لینی چاہئے، وہی عوام کے منتخب نمائندے ہیں اور انہی کو معلوم ہے کہ عوام کی بنیادی اور فوری ضرورت کیا ہے، ممبران اسمبلی کا کام قانون سازی ہے ترقیاتی منصوبہ بندی نہیں ہمارے نظام میں ہر ادارہ اپنی ذمہ داری چھوڑ کر دوسرے کی ذمہ داری انجام دینا چاہتا ہے ہر کوئی وہ کام کرنا چاہتا ہے، جس میں کچھ فائدہ نظر آئے انہوں نے کہا کہ میں اس نظام کی مضبوطی کیلئے کوشش کر رہا ہوں اگر کامیاب ہوا تو پورے پاکستان کو فائدہ ہو گا، ماضی میں جن لوگوں پر شہر کو ترقی دینے کی ذمہ داری تھی انہوں نے صحیح کام نہیں کیا اور ہم سے بھی غلطیاں ہوئیں جن کو ہم درست کر رہے ہیں، محرومیوں کے باعث شہر تقسیم ہوا مگر آج بھی ہم ان غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ رہے، بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ اس شہر کو پورے ملک کے لئے ترقی کا ماڈل بنائیں، یہ ملک کا ایسا شہر ہے کہ اس کی خصوصی حیثیت ہونی چاہئے۔

(جاری ہے)

اس شہر میں سب نے مل کر ماضی میں تجاوزات قائم کیں اور اب ان کو ہٹایا جا رہا ہے، شہر میں جو نفرتیں پہلے تھیں وہ اب نہیں ہیں اگر کچھ باقی ہیں تو ان کو بھی ختم ہونا چاہئیے اور یہ کام بڑے عہدوں پر فائز لوگ اپنے غیر جانبدارانہ فیصلوں کے ذریعے کر سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا، ملک کی ترقی جماعتی سطح سے بلند سوچ مانگتی ہے،کراچی میں امن و امان بہتر کرنے کے لئے رینجرز کی ضرورت ہے کیونکہ پولیس کو تربیت ہی نہیں دی گئی جب پولیس مقامی اور تربیت یافتہ ہو گی تو جرائم پر کنٹرول ہو گا مگر سندھ میں پولیس میرٹ پر نہیں، انہوں نے نوجون افسران سے کہا کہ اگر ملک کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے تو وہ عملی زندگی میں صرف میرٹ کو اپنا شعار بنائیں اور سیاست دانوں کی ہر بات میں ہاں نہ ملائیں تمام فیصلے میرٹ پر کریں، سیاست دان آپ کو پوسٹنگ سے ہٹا سکتا ہے اور کچھ نہیں کرسکتا،اس موقع پر زیر تربیت افسران نے میئر کراچی سے شہر کے انتظامی اور بلدیاتی اُمور کے حوالے سے سوالات بھی کئے اور میئر کراچی کے وژن کو سراہا، بعد ازیں افسران کی جانب سے میئر کراچی کو مونومنٹ پیش کیا جبکہ میئر کی جانب سے بھی وفدکے سربراہ کو یادگار شیلڈدی گئی ۔