ملک میں اب تک کورونا وائرس انسان سے انسان میں منتقل نہیں ہوا، تمام متاثرہ افراد بیرون ملک وائرس کا شکار ہوئے، ظفر مرزا

ہم بیرون ملک سے آنے والوں اور ان کے عزیزوں کی صحیح طریقے سے اسکریننگ کر لیں تو اس وائرس میں ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں، خدا نخواستہ انسان سے وائرس کی منتقل شروع ہوگئی تو گراف بہت اوپر چلا جائے گا،ایئرپورٹس پر قرنطینہ سینٹرز بنانا ممکن نہیں، معاون خصوصی کا انٹرویو

جمعرات 12 مارچ 2020 15:20

ملک میں اب تک کورونا وائرس انسان سے انسان میں منتقل نہیں ہوا، تمام متاثرہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مارچ2020ء) وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ ملک میں اب تک کورونا وائرس انسان سے انسان میں منتقل نہیں ہوا اور تمام متاثرہ افراد بیرون ملک وائرس کا شکار ہوئے،ہم بیرون ملک سے آنے والوں اور ان کے عزیزوں کی صحیح طریقے سے اسکریننگ کر لیں تو اس وائرس میں ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں، خدا نخواستہ انسان سے وائرس کی منتقل شروع ہوگئی تو گراف بہت اوپر چلا جائے گا،ایئرپورٹس پر قرنطینہ سینٹرز بنانا ممکن نہیں۔

ایک انٹرویومیں ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ مجھے پاکستان میں کورونا وائرس کے سامنے آنے والے آخری کیس کی تفصیلات کا علم نہیں تاہم اس سے قبل جو کیسز سامنے آئے ہیں وہ انسانوں سے انسانوں کو منتقل نہیں ہوئی، جو باہر سے اپنے جسم میں وائرس لے کر آئے ہم انہیں پرائمری کیسز کہتے ہیں، ہم نے ایسے لوگوں کو ایئرپورٹ پر پکڑا اور وائرس نہ ہونے پر گھر جانے کی اجازت دے دی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم بیرون ملک سے آنے والوں اور ان کے عزیزوں کی صحیح طریقے سے اسکریننگ کر لیں تو اس وائرس میں ملک میں پھیلنے سے روک سکتے ہیں۔ظفر مرزا نے وائرس سے متاثرہ افراد کو پکڑنے والے مانیٹرنگ سسٹم میں کمزوری سے متعلق کہا کہ میں خود وزیر اعلیٰ سندھ سے رابطے میں ہوں، معاملے پر وفاق اور صوبائی حکومت مل کر کوششیں کر رہے ہیں، جہاں تک بات اسکریننگ کمزور ہونے کی ہے تو یہ سسٹم چند ہفتے قبل ہی بنایا گیا ہے، اس سے قبل ہم نے بیرون ملک سے آنے والوں کی ہیلتھ اسکریننگ کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جبکہ اس سسٹم کے ذریعے ایئرپورٹس پر یکم فروری سے اب تک تقریباً 8 لاکھ لوگوں کو اسکرین کیا جاچکا ہے۔

سندھ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ سامنے آنے کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ کراچی کا ایئرپورٹ ملک کا سب سے مصروف ہوائی اڈہ ہے، ہمارے ایس او پیز کے مطابق اسکریننگ کے دوران جن لوگوں میں وائرس کی موجودگی کی علامات پائی گئیں انہیں ہسپتال منتقل کیا جارہا ہے جبکہ دیگر کو ہدایات کے ساتھ گھر بھیجا جارہا ہے اور انہیں زبردستی ہسپتال منتقل نہیں کر سکتے۔

کراچی میں پی ایس ایل کے میچز کے انعقاد کے حوالے سے معاون خصوصی نے کہا کہ جب تک وائرس انسان سے انسان میں منتقل نہیں ہو رہا ہمیں اس طرح کے مجمع سے متعلق بڑے اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے زیادہ تر کیسز ایران، عراق و دیگر ممالک سے آئے، چین سے ایک کیس بھی پاکستان نہیں آیا، جب تک ہم نے انسان سے انسان میں وائرس کی منتقلی کو روکا ہوا ہے کیسز صرف بیرون ملک سے آئیں گے، خدا نخواستہ انسان سے وائرس کی منتقل شروع ہوگئی تو گراف بہت اوپر چلا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ'ایئرپورٹس پر انٹری پوائنٹس یقیناً وفاقی حکومت کا فنکش ہے تاہم اس پر ہم صوبوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں، جہاں تک قرنطینہ کی بات ہے تو جتنے لوگ باہر سے آتے ہیں ان کے لیے ملک کے ایئرپورٹس پر قرنطینہ سینٹرز بنانا ممکن نہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس سلسلے میں ایمرجنسی کور کمیٹی بنائی ہے اور روزانہ اس حوالے سے میٹنگ ہوتی ہے، سب کے ساتھ مشورے کے بعد ایک ایس او پی بنایا گیا ہے اور اسی کے تحت کام ہورہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ جن مریضوں میں اب تک کورونا کی تصدیق ہوئی ہے ان میں سے کئی کی ایئرپورٹ پر ہی تصدیق کرلی گئی، البتہ ایسے مسافروں کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایسے مریضوں کی شناخت ایئرپورٹ پر نہ ہوسکے کیوں کہ ان میں کوئی علامات موجود نہیں ہو، لہٰذا ایسے سلسلے میں ان میں بعد میں علامات ظاہر ہونے پر یہ بھی بتایا جارہا کہ ان کو کہاں رابطہ کرنا ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے تفتان میں 3 ہزار افراد کو قرنطینہ کیا ہوا ہے اور انہیں 14 روز سے پہلے نہیں جانے دیا جائے گا۔ظفر مرزا کے مطابق ہم پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مریضوں کی تعداد بتاسکتے ہیں، کراچی کا ایئرپورٹ پاکستان کا مصروف ترین ایئرپورٹ ہے جہاں سب سے زیادہ بین الاقوامی مسافر لینڈ کرتے ہیں تو یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں کہ کراچی میں تعداد زیادہ ہے۔

انہوں نے ایئرپورٹ پر مسافروں کی اسکریننگ کے حوالے سے بتایا کہ ایئرپورٹ پر اسکریننگ اسکینر کے ذریعے ہورہی ہے جس میں تھرمو گن ماتھے پر لگایا جاتی ہے، وہ مسافر جو تھرمو اسکین سے گزریں انہیں تھرمو گن لگانے کی ضرورت نہیں، لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تھرمو گن استعمال نہیں ہوا تو ان کی اسکریننگ نہیں ہوئی، نئے تھرمو اسکینر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں لگائے گئے ہیں۔