احتساب عدالت نے میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 اپریل تک مزید توسیع کر دی

تفتیش کے دوران گرفتاری کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہی یہ واحد کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو اتنی جلدی تھی، وکیل کے دلائل

بدھ 25 مارچ 2020 16:40

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 مارچ2020ء) لاہور کی احتساب عدالت نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ میں 7 اپریل تک مزید توسیع کردی۔میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت احتساب عدالت کے ڈیوٹی جج جواد الحسن نے کی۔دوران سماعت میرشکیل الرحمان کے وکیل نے استدعا کی کہ اپنے مؤکل سے مشاورت کرنے کے لیے کچھ وقت فراہم کیا جائے ، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو مشاورت کرنیکا حق حاصل ہے۔

عدالت نے میر شکیل الرحمان اوران کے وکیل کو آپس میں مشاورت کی مہلت فراہم کرنے کی استدعا منظورکرتے ہوئے سماعت کچھ دیرکیلئے ملتوی کر دی۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے الزام عائد کیا کہ میر شکیل الرحمان کو جو زمین فراہم کی گئی وہ غیرقانونی طورپر ٹرانسفر کی گئی، ایل ڈی اے نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب نواز شریف کے حکم پر زمین دی۔

(جاری ہے)

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس وقت ایل ڈی اے سے یہ غلطی ہوئی کہ اس نے بیک وقت زمین میر شکیل الرحمان کے نام کرنے کا حکم دیا، ایل ڈی اے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں ان کا خیال نہیں رکھا گیا۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرشکیل الرحمان کو زمین تین مختلف جگہوں پر الاٹ کی گئی، میر شکیل الرحمان نے غیرقانونی طورپر یہ زمین ایک جگہ پرالاٹ کروائی۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ آپ قانون کے مطابق دلائل دیں سیاسی باتیں نہ کریں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے کو بلوایا تھا، سابق ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ انہیں تمام ریکارڈ فراہم کر دیں، وہ تمام ریکارڈ دیکھ کرتفصیلی جواب دیں گے۔نیب کے تفتیشی افسر نے میر شکیل الرحمان کا 15 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی جس پر میر شکیل الرحمان کے وکیل نے کہا کہ مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع نہ دی جائے، ایسا کونسا قتل کا کیس ہے جس میں آلہ قتل برآمد کرنا ہے۔

عدالت نے نیب افسر سے پوچھا کہ پٹواری نے ایل ڈی اے کو قبضہ کب دیا پہلے ایل ڈی اے کو قبضہ ملے گا تب ہی ایل ڈی اے آگے زمین منتقل کرے گا۔عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ آپ کو جسمانی ریمانڈ اب کیوں چاہیی جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ سابق ڈی جی ایل ڈی اے اور میرشکیل الرحمان کے ریکارڈ کا جائزہ لینا ہے۔عدالت نے نیب کے تفتیشی افسر سے کہا کہ ریکارڈ دکھائیں اور بتائیں کب ایل ڈی اے کو قبضہ کب ملا۔

عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ اس اراضی کے کتنے مالک ہیں جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ اس اراضی کا ایک ہی مالک ہے۔میر شکیل الرحمان کے وکیل نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس اراضی کے 7 افراد مالک ہیں، اگر اراضی کا ایک ہی مالک ہوا تو میں عدالت سے باہر چلاجاؤں گا۔میر شکیل کے وکیل امجد پرویز بٹ نے کہا کہ نیب کا الزام ہی درست نہیں ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ پھر تو کیس کی نوعیت ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔

میر شکیل الرحمان کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا کیس سامنے آیا ہے، چیئرمین نیب نے ذاتی طور پر میر شکیل الرحمان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اپنے ہی بنائے گئے قوانین کی دھجیاں بکھیر دیں۔وکیل نے کہا کہ میر شکیل الرحمان تمام ریکارڈ نیب کو فراہم کرچکے ہیں، میر شکیل الرحمان کو جب بھی نیب نے بلوایا وہ پیش ہوئے لیکن نیب نے قانون سے آگے جا کر کارروائی کی۔

جنگ جیو کے ایڈیٹر انچیف کے وکیل نے اپنے دلائل میں سوال کیا کہ تفتیش کے دوران گرفتاری کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہی یہ واحد کیس ہے جس میں چیئرمین نیب کو اتنی جلدی تھی۔امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میر شکیل الرحمان کی گرفتاری بادی النظرمیں غیرقانونی تھی، برصغیر کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری پر گرفتار کر لیا جائے۔احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا جو کچھ دیر بعد سناتے ہوئے جسمانی ریمانڈ میں مزید 7 اپریل تک توسیع کردی۔