چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ بار کمپلیکس کا افتتاح کر دیا

بینچ اور بار کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے، انصاف کی فراہمی اور مقدمات جلد نمٹانے میں وکلاء کا تعاون بھی چاہتے ہیں، بینچ اور بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں،چیف جسٹس گلزار احمد کا خطاب

جمعہ 10 جولائی 2020 23:54

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 جولائی2020ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں سپریم کورٹ بار کمپلیکس کا افتتاح کر دیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بینچ اور بار کا مقصد انصاف کی فراہمی ہے۔ انصاف کی فراہمی اور مقدمات جلد نمٹانے میں وکلاء کا تعاون بھی چاہتے ہیں، بینچ اور بار ایکدوسرے کا حصہ ہیں، بینچ اور بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، بینچ اور بار کا تعلق ہمیشہ قائم رہے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو یہاں سپریم کورٹ بار کمپلیکس کے افتتاح کے موقع پر ملک میں کورونا وائرس کے باعث عدالتی نظام کو درپیش مسائل کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں عدالت عظمی کے جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس یحی آفریدی، جسٹس قاضی امین، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر قلب حسن، سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء حامد خان اور علی ظفر سمیت دیگر نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بینچ اور بار کا مقصد سائلین کو انصاف کی فراہمی ہے، انصاف کی فراہمی میں وکلاء کا تعاون بھی چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بینچ اور بار ایک دوسرے کا حصہ ہیں، بینچ اور بار کا تعلق ہمیشہ قائم رہے گا، بینچ اور بار ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ وکلا کو کمپلیکس ہاسٹل میں فائیو اسٹار ہوٹل کی سہولیات میسر ہوں گی، کمپلیکس اور بار کے سلسلے میں ہر قسم کی سہولت اور مدد فراہم کرنے کو تیار ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ مجھے اور عدالت عظمی کے دیگر معزز ججز کو تقریب میں شرکت کیلئے دعوت دینے پر بار کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عدالت عظمی کے جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بارز اور وکلا کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوں، بارز کو کبھی خود سے دور نہیں سمجھا، سال میں ایک دو مرتبہ ضرور بینچ اور بار کا ڈائیلاگ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ بچپن سے مجھے ٹیکنالوجی کا شوق تھا، کورونا نے یقننا ہم سب کی زندگی بدل دی ہے۔ کورونا وائرس کیخلاف حفاظتی اقدامات کیلئے ماسک لگانے کے تناظر میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب منہ چھپانا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کا بروقت فیصلہ نہ ہونے اور التو کے باعث ججز کو بھی بعض اوقات منہ چھپانا پڑجاتا ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ہمارا نظام انصاف اچھا نہیں ہے، ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق 128 ممالک میں سے پاکستان 120 نمبر پر تھا، ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایز آف بزنس میں 190 ممالک میں سے پاکستان 156 ویں نمبر پر ہے۔

جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ میرا تعلق بار سے ہے اور مجھے واپس بار میں جانا ہے اس لیے میں نے بار کو کبھی خود سے دور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا مکالمہ ہر ماہ نہ سہی تو تین ماہ بعد لازمی ہونا چاہیے۔ جسٹس مشیر عالم نے عدلیہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے آٹو میشن سسٹم رائج کرنے پر زورد یتے ہوئے کہا کہ وکلا اس کی مخالفت نہ کریں۔ انہوں نے کہا میں گزشتہ بیس سال سے آٹومیشن سے وابستہ ہوں، ہم نے سب سے پہلے سندھ ہائیکورٹ میں آٹو میشن کی کوشش کی، وکلا نے آٹومیشن کو اپنا دشمن سمجھا اور احتجاج شروع کر دیا، میں چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تھا میرے خلاف بھی احتجاج ہوا، مجبوراً ہمیں ضلعی سطح پر آٹومیشن سسٹم ختم کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ آٹومیشن سسٹم پر کام ہو رہا ہے ، ہم فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں آٹومیشن سسٹم کی تنصیب کر رہے ہیں، اگر بار یہ سمجھتی ہے کہ آٹومیشن ان کی پریکٹس میں رکاوٹ ہے تو اس سے مشکلات بڑھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ اب سندھ ہائیکورٹ میں جعلی کیسز نہیں آ سکتے کیوں کہ وہاں موکلین کی ذاتی حیثیت میں پیشی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹومیشن سے حاصل ہونے والی آمدن سے بارز کے مسائل بھی حل کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار آٹومیشن کے قوانین بنائے ہیں، آٹومیشن کے معاملے پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا ہے،اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ای کورٹس کے لیے کافی کام کیا ہے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اس وقت ہمیں فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے، ہمیں بگ ڈیٹا بنک اور نیشنل ڈیٹا بنک کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب سائلین موبائل سے کیسز دائر کر سکیں گے اور پھر ہمیں منہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کورونا نے ہمیں نئے آئیڈیاز اور سوچنے کا موقع دیا ہے،ویڈیو لنک وکلا اور سائلین کیلئے بہترین سہولت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کمپلیکس میں بہترین سہولیات ہیں،ہم تو چاہتے ہیں اس کمپلکس میں بیٹھ کر ویڈیو لنک سے وکلا اپنے دلائل دیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر قانون علی ظفر نے کہا کہ کورونا وائرس نے ہماری زندگی کو بدل دیا ہے، ہمارا عدالتی نظام بھی کورونا سے نہیں بچ سکا،عدالتوں میں استطاعت سے 50 فیصد کم کام ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس ہمارے لیے ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا موقع ہے،ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہم زیر التوا مقدمات کو جلد نمٹا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ای کورٹ قائم کرنے کی ضرورت ہے،ہمیں لانگ ٹرم کیلئے نیو جنریشن ڈیجیٹل جوڈیشل پورٹل بنانا ہوگا،ملزمان کا بیان ریکارڈ کرنے سمیت سائلین کو موبائل سروس دینا ہو گی۔

اس موقع پر سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان نے کہا کہ 21 ویں صدی کے اپنے تقاضے ہیں، ہمیں آن لائن کی نئی سمت کی طرف جانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے خریداری اور بینکنگ آئن لائن تھی اب عدالتیں بھی آن لائن ہونگی۔ تقر یب کے اختتام پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں معزز ججز صاحبان سمیت تمام مہمانوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہمارے پروگرام میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو لنک کیلئے بار رومز میں کمرے مختص کئے ہیں، وکلاء بار رومز میں بیٹھ کر سپریم کورٹ کراچی, پشاور اور کوئٹہ رجسٹری میں دلائل دے سکیں گے۔