بین الاقوامی کاٹن کے بھا ئومیں اضافہ کے زیر اثر مقامی کاٹن کے بھائو میں فی من 150 روپے کا اضافہ

بارشوں کی وجہ سے کپاس کی فصل کو نقصان ہونے کا خدشہ،ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمد کو فروغ ملنے کا عندیہ، کپاس کی پیداوار بڑھانے والے نئے اقسام کے بیج متعارف کرانے کا پنجاب کے صوبائی وزیر زراعت کا اعلان، ہفتہ وار رپورٹ

ہفتہ 22 اگست 2020 22:46

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اگست2020ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل اور اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں اضافہ کے نسبت پھٹی کی محدود رسد کے باعث روئی کے بھائو میں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر رہا۔ روئی کے بھا ئومیں فی من 150 روپے کا اضافہ ہوا۔ بھائو میں اضافہ کی ایک وجہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھا ئومیں اضافہ بھی گردانا جاتا ہے خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھا ئومیں اضافہ کی وجہ سے پاکستان میں موجود ایک بین الاقوامی فرم کی جانب سے روئی کی خریداری میں اضافہ ہونے کے سبب مقامی روئی میں اضافہ ہو جاتا ہے یہ بین الاقوامی فرم اس سال شروع سیزن سے مسلسل روئی کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے ایک اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ گانٹھوں سے زیادہ روئی خرید چکی ہے روئی کے بھا ئومیں اضافہ کے سبب ٹیکسٹائل و اسپننگ کو بھی اپنی ضرورت کیلئے زیادہ دام پر روئی خریدنی پڑ رہی ہے دوسری جانب بارشوں کے باعث پھٹی کی رسد محدود ہونے کی وجہ سے بھی روئی کے بھائو میں اضافہ کا رجحان ہے۔

(جاری ہے)

بارشوں کے باعث کپاس کی فصل کو نقصان ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے پہلے ہی ناقص بیجوں کے سبب ملک میں کپاس کی بوائی توقع سے کم ہوئی ہے اوپر سے بارش رہی سہی کسر پوری کر رہی ہے۔ اس طرح کپاس کی پیداوار کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا جارہا ہے پنجاب کی صوبائی حکومت نے صوبے میں کپاس کی پیداوار 75 لاکھ گانٹھوں کی ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر صوبہ سندھ میں کپاس کی پیداوار 30 تا 35لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہوئی تو ملک میں کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 10 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہونے کا اندازہ بتایا جاتا ہے لیکن نجی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں کپاس کی پیداوار تقریبا 87 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔

صوبہ سندھ میں روئی کا بھائو فی من 8275 تا 8400 روپے پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 3600 تا 3900 روپے رہا بنولہ کا بھائو فی من 1450 تا 1550 روپے رہا جبکہ صوبہ پنجاب میں روئی کا بھائو فی من 8650 تا 8750 روپے رہا پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 3700 تا 4100 روپے بنولہ کا بھائو فی من 1650 تا 1800 روپے رہا۔صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھا ئوفی من 8350 تا 8450 روپے رہا پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 4000 تا 4100 روپے رہا۔

کراچی کاٹن ایسوسی کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 150 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 8500 روپے کے بھائو پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں مجموعی طورپر تیزی کہی جاسکتی ہے خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھائو میں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر رہا جو بڑھ کر فی پائونڈ 64 امریکن سینٹ سے تجاوز کرگیا جس کی وجہ امریکہ کے کپاس پیدا کرنے والے سبسے بڑے اسٹیٹ ٹیکساس میں کپاس کی غیر یقینی صورت حال ہے دوسری جانب USDA کی ہفتہ وار برآمدی رپورٹ میں چین مسلسل بڑا درآمد کنندہ سامنے آرہا ہے ہفتہ کے دوران روئی کی برآمد میں 51فیصدکا نمایاں اضافہ ہوا۔

برازیل، ارجنٹینا اور چین میں روئی کا بھائو مجموعی طورپر مستحکم رہا۔ بھارت میں روئی کے بھائو میں مجموعی اضافہ دیکھا گیا اس سال بھارت کے کپاس پیدا کرنے والے سب سے بڑے صوبہ گجرات میں وافر مقدار میں بارشوں کے سبب دیگر اجناس کے ساتھ کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہونے کی توقع ہے دوسری جانب کاٹن کارپوریشن آف انڈیا CCI نے خریدی ہوئی روئی کے اسٹاک میں سے مقامی ملز اور بنگلہ دیش کی ملوں کو روئی فروخت کررہا ہے جس کے باعث بھارت کے مقامی جنرز میں اضطراب پایا جاتا ہے۔

دریں اثنا مقامی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ میں بین الاقوامی سطح پر اضافہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں مقامی مارکیٹ میں بھی کاٹن یارن کی مانگ اور بھائو میں نسبتا اضافہ ہورہا ہے البتہ ادائیگیوں میں دشواری ہورہی ہے حکومت برآمد کنندگان کو رعایت دے رہی ہے لیکن GIDC کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے برآمد کنندگان سیکٹر جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر نمایاں ہے کو اضطراب لاحق ہے۔

محکمہ زراعت پنجاب جلد ہی کپاس کی نئی اقسام کو منظوری کے لئے پنجاب سیڈ کونسل PSC میں پیش کرے گا۔ نجی اور عوامی زراعت کے شعبے کے سائنس دانوں نے تیار کیا ، جس میں گلابی سنڈی اور سفید مکھی کے خلاف مزاحمت ہے اور پیداوار میں اضافے اور ان پٹ لاگت کو 40 فیصد تک کم کرنے کی صلاحیت ہے۔اس بات کا انکشاف جمعہ کے روز وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان احمد لنگڑیال کی زیر صدارت زراعت ہاس میں روئی کی جدید ٹیکنالوجی میں تحقیق اور ترقی کے اسٹیک ہولڈرز کے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس میں نجی اور سرکاری شعبہ کی تنظیموں کے ذریعہ کی جانے والی تحقیق پر تبادلہ خیال کیا گیا اور بتایا گیا کہ پاکستان میں روئی کی فصل کی مدد کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول ضروری ہے۔ وزیر موصوف نے خوشی کا اظہار کیا کہ کپاس کی فصل میں محققین کو غیر معمولی کامیابی مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس کی نئی اقسام کاشتکاروں کو جلد ہی تمام باقاعدگی اور اعداد و شمار کے تجزیے مکمل کرنے کے بعد دستیاب ہوں گے۔

اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل زراعت(توسیع)ڈاکٹر انجم علی بٹر ، ڈی جی(ریسرچ)ڈاکٹر عابد محمود ، ڈائریکٹر کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ملتان ڈاکٹر صغیر احمد ، چیف میڈیا ایڈوائزر شاہد قادر اور دیگر بھی موجود تھے۔اس موقع پر کمپنیوں نے اجلاس کو کچھ نئی اقسام کے بارے میں آگاہ کیا جو بیماریوں کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں ، خاص طور پر گلابی سنڈی اور سفید مکھی۔ وزیر نے محققین پر زور دیا کہ وہ نیا بیج لے کر آئیں جو آب و ہوا کی تبدیلی کے غضب کا سامنا کرسکتا ہے کیونکہ کپاس کے پرانے بیج تبدیلیوں کا سامنا کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ نئے بیج پڑ کیڑوں سے کم حملہ دیکھنے کو ملے گا اس طرح ان پٹ لاگت میں کمی آئے گی۔