حیات بلوچ کے قتل کاایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں پراسرار واقعات ہوئے ہیں ،نواب محمد اسلم رئیسانی

منگل 25 اگست 2020 00:35

Rکوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 اگست2020ء) سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ورکن صوبائی اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہاہے کہ حیات بلوچ کے قتل کاایک واقعہ نہیں بلکہ ایسے سینکڑوں پراسرار واقعات ہوئے ہیں ،آئی جی ایف سی حیات بلوچ سے بحیثیت سرکاری ملازم متاثرہ خاندان کے پاس گئے لیکن وزیراعلی جام کمال یا حکومت نے ہمدردی کااظہار نہیں کیا،گھر ہمارا جلا ہے ،میرے بھائی کومیرے مخالف کھڑا کرنے والے آج تک ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے نہیں گئے ،احسان اللہ احسان فرار کے بعد 22دن گھوم رہا ہوتاہے لیکن کسی کو پتہ نہیں چلتا ،ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا وزیراعظم بھی جبر واستبداد کی وجہ سے پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے ،اعتدال پسندی کی سیاست کرنے والوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جایاجارہاہے ،سرحدی شہر چمن میں بارڈر سانحہ صرف 500 روپے نہ دئیے جانے پر پیش آیا ،فیڈریشن کو تباہ کرنے سے گریز کیاجائے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں ایجنڈے پر بحث کرتے ہوئے کیا۔ سابق وزیراعلی بلوچستان اور رکن اسمبلی نواب محمد اسلم رئیسانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حیات بلوچ کے قتل کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں اس کے قسم کے اکثر پراسرار واقعات پیش آتے رہے ہیں تاہم حیات بلوچ کا واقعہ سامنے آیا،حیات بلوچ کے ہاتھ اس کی والدہ کے چادر سے باندھے گئے واقعہ میں صرف ایک اہلکار ملوث نہیں وہاں موجود تمام افراد کو شامل تفتیش کیاجائے ،آئی جی ایف سی بحیثیت ایک سرکاری ملازم متاثرہ خاندان کے پاس گئے مگر وزیراعلی اور حکومت کی طرف سے کسی نے متاثرہ خاندان سے ہمدردی نہیں کی ،انہوں نے کہاکہ واقعہ میں ہونے والی بربریت کی فوٹیج وائرل ہوئی ہے ان تمام پہلوئوں کو دیکھاجائے کہیں بھی مظلوم اور غریب لوگوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتاآواران میں کتنے گائوں جلائے گئے ہیں اور لوگ لاپتہ ہیں ،انہوں نے کہاکہ پشتون بلوچ وطن میں آباد تمام معتبرین ہمارے لئے قابل احترام ہے ،بحیثیت اراکین اسمبلی صرف ہم بلوچستان کے معتبر نہیں یہاں بہت سے معتبرین ہیں جن کی ہماری نظروں میں عزت واحترام ہے ۔

انہوں نے کہاکہ ملک کا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا وزیراعظم بھی جبر واستبداد کی وجہ سے پاکستان آنے کو تیار نہیں ہے ،فواد چوہدری نے کہاکہ کشمیر کامسئلہ پنجابیوں اور کشمیریوں کا مسئلہ ہے تاہم آیا کشمیر ایک منٹ کی خاموشی یا نقشہ بنانے سے آزاد ہوگا ،انہوں نے کہاکہ فیڈریشن کو نقصان پہنچایاجائے ہم اپنے آئندہ نسلوں کو سول وار اور آگ میں نہیں جھونکناچاہتے اب ایسے اقدامات ختم ہونے چاہئیں ،حکومت کو مل بیٹھ کر پولیس اور لیویز کی استعداد کار میں اضافے کیلئے سوچنا چاہیے انہوں نے وزیراعلی بلوچستان کے ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ایران سے آنے والے زائرین تفتان سے مستونگ تک ویرانوں سے گزر کر آتے ہیں تاہم ان زائرین کو شیخ واصل اور سبزی منڈی کے درمیان نشانہ بنایا گیا جب یہ ملک کے دیگر علاقوں کو جاتے ہیں تو انہیں کہیں نشانہ نہیں بنایاجاتا انہوں نے کہاکہ سراج خان رئیسانی پر خودکش حملہ بھی درینگڑھ کے مقام پر ہوتاہے میں اپنی حکومت میں شیعہ زائرین پر ہونے والے حملوں کا اگر ذمہ دار ہوں تو آج حکومت میں موجود اہل تشیع کے نمائندوں آج تک کیوں جوڈیشل انکوائری کرانے کامطالبہ نہیں کیا ،میرا گھر جلا ہے سراج رئیسانی کی قبر پر فاتحہ خوانی میں آج میں اور میرے بھائی جاتے ہیں جبکہ سراج کو میرے مخالف کھڑا کرنے والے آج تک ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کیلئے نہیں گئے ،اسلام آباد سے ایک پولیس آفیسر کواغوا کیاجاتاہے احسان اللہ احسان جیل توڑ کر فرار ہوجاتاہے اور 22دن تک گھومتا پھرتا وٹس ایپ پر رابطے بھی کرتاہے تاہم کسی کو پتہ نہیں چلتا ،انہوں نے کہاکہ اس فیڈریشن کو تباہ نہ کیاجائے ہم یہاں ہزاروں سالوں سے آباد ہیں اپنی قبریں چھوڑ کر نہیں جائینگے ۔

انہوں نے کہاکہ حاجی ذابد ریکی پر حملہ قابل مذمت ہے ،پارلیمان کی سیاست کرتے ہیں اور محسوس کررہاہوں کہ اعتدال پسندی کی سیاست کرنے والوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جایاجارہاہے ۔انہوں نے کہاکہ انڈونیشیا میں تعینات پاکستانی سفارت کار نے سفارتخانہ ہی فروخت کردیا اگر ہم ایسا کرتے تو ہماری آئندہ نسلیں بھی یاد رکھتی ،اقتدار کو طول دینے کیلئے قتل وغارت گیری کا جو سلسلہ چل پڑاہے اسے بند کیاجائے چمن واقعہ صرف 500 روپے نہ دئیے جانے پر پیش آیا ،چمن میں سرحد پر اشیا کی اسمگل کرنے والے شخص سے 500روپے دینے کامطالبہ کیا جس پر انکار پر سرحد آمدورفت کیلئے بند کی گئی اور یہ دلخراش واقعہ پیش آیا۔واقعہ میں 65کے قریب لوگ جاںبحق ہوئے ہیں ۔