کورونا کی دوسری لہرسے پاکستان میں معاشی عشاریے متاثر نہیں ہوئے،گورنر سٹیٹ بنک

بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اُمیدکرن، کوروناوباء کے باعث غربت میں اضافہ ہوا، دُنیا کی معاشی گتھیاں اُلجھ کے رہ گئیں ،عاصم باجوہ شرح سود میں واضح کمی کے باعث متعدد شعبوں کی حوصلہ افزائی ہوئی،چھوٹے اور درمیانے کاروبار وں کو رسک انشورنس کی سہولت دی پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں ، ضرورتمند کی پہنچ سے دور ہے،سفیر یورپی یونین:حکومتی پالیسیوں میں تسلسل اور شفافیت ضروری ہے، ڈاکٹر عابد

منگل 15 دسمبر 2020 23:59

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 دسمبر2020ء) سٹیٹ بنک کے گورنر رضا باقر نے کہا ہے کہ کورونا وباء سے پہلے درآمدات کا حجم ماہانہ 2 ارب ڈالر تھا جس میں ٹیکسٹائل ، چاول، سیمنٹ ، کیمیکل، اور ادویات شامل ہیں۔مقامی تجارت کو بڑھاوا دینے کیلئے ضروری ہے کہ درآمدات میں کمی کر کے مسابقتی رحجان میں اضافہ کیا جا ئے۔ اس امر کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کی4 روزہ 23 ویں پائیدار ترقی کانفرنس کے دوسرے روز کورونا وباء کے دوران معاشی اقدامات و لائحہ عمل کے حوالے سے گفتگو کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور روز گار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے ستیٹ بنک آف پاکستان نجی بنکوں اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے ساتھ مل کر گھر بنانے کیلئے آسان شرائط پر قرض کی سہولت دے رہا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایات کی روشنی میں حکومت ہائوسنگ اور تعمیرات کے شعبے کو ترقی دینے کیلئے موثر اقدامات اٹھا رہی ہے۔

ان اقدامات کیلئے سٹیٹ بنک آف پاکستان نجی بنکوں کی معاونت کر رہا ہے۔رضا باقر نے بھارتی معیشت کی شدید تنزلی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وباء کے دوران پاکستان بہتر اقدامات کے باعث مشکلات کا شکار نہیں ہوا۔سٹیٹ بنک کی طرف سے اٹھائے جانے والے فوری اقدامات کے نتیجے میں پاکستان دیوالیہ ہونے اور منفی اثرات سے محفوظ رہا۔ اب پوری دنیا میں پاکستانی مصنوعات کی طلب بڑھ رہی ہے اور ہمارے برآمد کندگان کو آڈر مل رہے ہیں۔

ہمیں اپنی برآمدات کے ذریعے قومی پیداوار کی شرح میں اضافے پر توجہ دینی چاہئے۔ وباء کے دوران فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے خواتین کیلئے مشکلات کے موضوع پراظہار خیال کرتے ہوئے یورپی یونین کی سفیر محترمہ آندرولا کمینہارا نے کہا ہے کہ پاکستان میں وافر خوراک موجود ہے مگرغیر مناسب ا نتظامات کی وجہ سے یہ غریب اور کمزور طبقے کی پہنچ سے دور ہے۔

انہوں نے کہا کہ غربت ، صنفی امتیاز،خوراک کے عدم تحفظ اور غیر منصفانہ نظام خواتین کیلئے مشکلات کا سبب بن رہا ہے۔ اس موقع پر نیدر لینڈ کے سفیر والٹر پلمپ نے منڈیوں سے ہی تحفظ خوراک اور معیار کو محفوظ بنانے پر زور دیا ۔ وزارت برائے قومی فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے ایڈیشنل سکریٹری راشد محمود نے کہا کہ پاکستان کو غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کیلئے کثیر ا لجہتی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔

فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے ڈاکٹر عامر ارشاد نے کہا عالمی وبائی صورتحال کے باعث معیشت اور پیداوارکم ہورہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ خراب موسم ، پیداواری لاگت اور درآمدی خوراک افراط زر کا باعث ہیں۔بیلٹ اینڈ روڈ انی شیٹو کے موجوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ کورونا کی وباء سے پہلے ہی چین دنیا کے ساتھ خوشحالی بانٹنے کی سوچ لے کر چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چھوٹے اور ترقی پزیر ملک کورونا کے دوران ا اپنے لوگوں کو اس طرح کی سہولتیں نہیں دے سکتے جس طرح ترقی یافتہ ممالک دے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک اور ایک خطہ ایک سڑک کا منصوبہ ترقی پزیر ملکوں کیلئے اُ مید کی کرن اور خوشحالی کا باعث ہو گا۔کانفرنس میں بیجنگ سے آن لائن شرکت کرتے ہوئے چین کی ماحولیاتی فیڈریشن کے سربراہ سی گیائو یان(Xie Guoxian) نے کہا کہ چین ترقی کا روایتی طریقہ کار بدل کر ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر پاکستان کی مشکلات کو سمجھ کر اسکے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔

اسلام آباد میں چینی سفارخانے کے اتاشی شی یو ہانگ(Xie Yuhong) نے کہا کہ دنیا ماحولیاتی تبدیلی اورعالمی وباء جیسی مشکلات کو ختم کرنے کیلئے مل کر کام کر سکتی ہے۔ایسے اہداف ملکوں اور اقوام کیلئے مشترک ہیں۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے جنوبی ایشیاء میں وباء کی صورتحال کے عنوان پر ایس ڈی جیزپارلیمانی ٹاسک فورس کے سربراہ ریاض فتیانہ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش سماجی معاشی اور سیاسی مشکلات کیلئے مذید جدوجہد کرنا ہو گی۔

اس موقع پر قومی اسمبلی کی رکن رومینہ خورشید نے کہا کہ پاکستان کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بیرونی دنیا کا تعاون حاصل نہیں کیا جا سکا۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائرکیٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ بہتر پیغام رسانی سے لوگوں کیلئے شفافیت ، اور حکومتی پالیسیوں میں بہتری آ سکتی ہے اور حکومتی مشینری کے ذریعے عملدرآمد کو موثر بنایا جا سکتا ہے۔

سابق وفاقی وزیر سرتاج عزیز صدی میں نئی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مباحثے میں اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ معلومات کی ترسیل کیلئے مواصلات کے جدید ذرائع کا استعمال وباء کے بعد پیدا ہونے والی مشکلات کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ جدید ٹیکنالوجی سے نطام کو منسلک کرنے کیلئے نجی شعبے کے ساتھ اشتراک عمل کا طریقہ کار واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔

اس موقع پر وزیر اعظم کی ٹاسک فورس برائے آئی سی ٹی کے رکن پرویز افتخارنے کہا کہ تیز ترین انٹر نیٹ معیشت ، صحت ، تعلیم اور دیگر شعبوں کی ترقی کی رفتار کو پہیہ کی نسبت زیادہ بڑھاوا دے سکتا ہے۔ایس ڈی پی ن آئی کے بریگیڈئر (ر) محمد یا سین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو خطرات سے آگاہ کرنے اور حفاظتی اقدامات کے حوالے سے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش کی ڈاکٹر فہمیدہ خاتون،آئی ڈی ایس کی ڈاکٹر پائولن آسٹرو، وزارت خارجہ پاکستان کے مدثر ٹیپو، سری لنکن تھنک ٹینک کی سربراہ ڈاکٹر دُوشنی ویراکون، یونی سکیپ کی ڈاکٹر ناگیش کمار، بھارت سے پروفیسر ڈاکٹر سچن چترویدی، نیپالی تھنک ٹینک کے سربراہ ڈاکٹر پوش راج پانڈے ،وزارت خزانہ کے مشیر ڈاکٹر خاقان حسن،ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ڈاکٹر اطہر اسامہ،نمل کے پرو ریکٹر ڈاکٹر زبیر اقبال غوری،پروئم کے علی سلمان ،جی آئی زیڈ سے سید محمد مصطفے ، دا کٹر شاہین سردار،کینیڈین یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر فیصل شاہین،فاطمہ جناح یونیورسٹی کی ڈاکٹر عدیلہ رحمان ، ڈاختر سحرش قیوم ، ڈاکٹر سید حسین شہید سہروردی،ڈاکٹ رفرہان زاہد،ڈاکٹر پرویز طاہر ، ڈاکٹر راشد باجوہ، نادر گل ، شبانہ افتخار ،شندانہ خان اور ڈاکٹر وقار احمد نے کانفرنس کی مختلف نشستوں میں اظہار خیال کیا۔