امن، انصاف اور کشمیر

DW ڈی ڈبلیو اتوار 16 مئی 2021 15:20

امن، انصاف اور کشمیر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2021ء) جموں و کشمیر کا شمالی قصبہ اور تجارتی مرکز سوپور دنیا کے بہترین سیبوں کی پیداوار اور اپنے باشندوں کی تاجرانہ مہارت کی وجہ سے خطے کا سب سے آسودہ حال علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کی افسانوی زندہ دلی تاریخ میں رقم تو ہے مگر سیاسی بیداری کی وجہ سے یہ ہنگاموں و پچھلی تین دہائیوں سے ہلاکت خیزیوں کا بھی مرکز رہا ہے۔

اس قصبہ کی ان خصوصیات سے میرا واسطہ پچپن سے ہی ہے۔ میں شاید پانچ سال کی تھی، جب فوج اور نیم فوجی دستوں نے نصف شب کو میری خالہ کے گھر پر ریڈ کی اور کئی گھنٹوں کے آپریشن کے بعد وہ میرے خالو کو ساتھ لے گئے۔ میں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اگلے دو سال تک ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔

گویا خالو کو بغیر کسی چارج کے حراست میں لینا کافی نہیں تھا اور ان کی فیملی کو گھر خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔

(جاری ہے)

اگلے تین سال تک ان کے گھر پر نیم فوجی تنظیم سینٹرل ریزرو فورسز کا کیمپ اور انٹیروگیشن سینٹر تھا۔ گھر سے بے گھر افراد کے لیے حصول رزق اور پھر گھر کے واحد کمانے والے کو ڈھونڈنا ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا۔

کشمیر میں کوئی ایسا تفتیشی مرکز یا سیکورٹی فورسز کا کیمپ نہ ہو گا، جہاں خالو کو ڈھونڈنے کے لیے ان کے اہل خانہ نے دستک نہ دی ہو۔

مختلف جیلوں کا ریکارڈ رکھنا اور وہاں کے ملاقات کے قواعد معلوم کرنا، گھر کا ایک معمول بن گیا تھا۔ ہر روز گھر کا کوئی نہ کوئی فرد کسی نہ کسی حاکم کا دروازہ کھٹکھٹا کر مدد کی دہائی دیتا رہتا تھا۔

جب سبھی رشتہ دار ان کی کوئی خبر نہ آنے سے نا امید ہو گئے تھے تو کہیں سے معلوم ہوا کہ وہ بغیر کسی چارج کے ایک جیل میں بند ہیں۔ ہمارا خاندان خاصا خوش قسمت تھا، ورنہ اس خطے میں لاتعداد خاندان اب بھی اپنے قریبی عزیزوں کے ٹھکانوں اور قبروں کا پتہ لگانے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

میرے لاشعور میں یہ پہلا ایسا واقعہ تو تھا لیکن آخری نہیں۔ جیسے ہی میں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلا کیا، تو اس وقت ناانصافی، اختیارات کے ناجائز استعمال، صرف شک کی بنیاد پر کسی کو ہلاک یا غائب کرنا معمول کی بات بن چکی تھی۔

2008ء، 2009ء، اور 2010ء میں کشمیر میں بھی ایک طرح کی انتفادہ تحریک شروع ہوئی تو اسی کے ساتھ بدنام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو بڑے پیمانے پر لاگو کرنے اور اس کے تحت بغیر کسی فرد جرم کے لوگوں کو جیلوں میں رکھنے کا بھرپور استعمال ہونا شروع ہوا۔

یہ ایک ایسا قانون ہے، جس کے تحت کسی شخص کو دوسال کی مدت تک بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔

اس خطے میں فوج کو لامحدود و وسیع اختیارات دینے والے قانون آرمڈ اسپیشل پاور ایکٹ تو پہلے سے ہی نافذالعمل تھا۔ ان دونوں قوانین نے مل کر مسلح افواج اور ریاستی انتظامیہ کو بے لگام من مانی طاقت دی ہے، جس کا کوئی حساب نہیں ہے۔ اور ان دونوں قوانین کی وجہ سے خوف کے عنصر میں ہونے والے اضافے نے ریاست کو من مانی حراستوں، گمشدگیوں اور ماورائے عدالت اقدامات کے ذریعے بلا شبہ حالات کو معمول پر لانے میں مدد کی۔

مگر وہ خاندان جو سخت قوانین کے استعمال سے اجڑ گئے ہیں۔ ان کی حالت زار سے سماجی و اقتصادی تانے بانے بکھر گئے ہیں، جو شاید ہی واپس پروئے جاسکیں گے۔

گو کہ کشمیر کے سماجی تانے بانے ایسے ہیں کہ عوام عمومی طو ر پر متاثرین کے اہل خانہ کو تسلی دینے میں پورا کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر مہینے کی دسویں تاریخ کو سرینگر میں لاپتہ افراد کے لواحقین شہر کے مرکز میں جمع ہو کر ایک دوسرے کے درد اور غم میں شریک ہوتے تھے۔

قانون اور کونسلنگ کے میرے مطالعہ کے مطابق یہ اجتماعات ان خاندانوں کے لیے عارضی تناؤ کو دور کرنے کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ ایک طرح سے یاد دہانی کا کام بھی کرتے تھے کہ لوگ اپنے پیاروں کے خلاف ہوئی ناانصافی کو بھلا نہیں پائے ہیں۔ان میٹنگوں کی وجہ سے یہ خاندان اجتماعی بندھیں میں بندھ کر ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک بھی ہوتے تھے۔

میں نے اپنی تحقیق میں دیکھا کہ لاپتہ اور زیر حراست مردوں کی بیویوں کو متعدد سماجی اور معاشی محاذوں پر بقا کی جنگ لڑنی پڑی ہے۔کئی بار لاپتہ افراد اپنے اہل خانہ سے ملاقات کیے بغیر ہی دوران حراست انتقال کر گئے۔ حال ہی میں ایک کشمیری سیاسی قیدی ایاز اکبر بھٹ کی اہلیہ کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئیں جبکہ ان کے شوہر تین سال سے دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔

ریاست نے شوہر کو بیوی کی آخری رسومات میں شرکت کی اجازت دینے کی اجازت بھی نہیں دی۔

اگرچہ میرے انکل خوش قست تھے کہ ایک طویل مدت تک بغیر کسی چارج و مقدمہ کے وہ گھر واپس لوٹے، مگر اکثر افراد اتنے خوش قسمت نہیں۔ گزشتہ سال پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیے گئے ایک کشمیری سیاسی رہنما کی موت اس وجہ سے ہوئی کہ ان کی بار بار اپیل پر بھی انکو طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔

دنیا بھر میں خطرناک ترین قیدیوں کو بھی طبی سہولیات فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لیا جاتا ہے۔ اہل خانہ نے علاج کے لیے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا، مگر ان کا مقدمہ درج ہی نہیں ہوا، تاآنکہ اس بزرگ قیدی نے آخری سانس لی۔

Association of parents of disappeared persons کی چیئرپرسن پروینہ آہنگر کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے دس ہزار کے قریب ہے۔

جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے چیف جسٹس آف انڈیا کو لکھے گئے ایک خط کے مطابق احتیاطی حراست میں رہنے والے افراد کی تعداد 13,000 کے لگ بھگ ہے۔

خوف و دہشت کے ماحول کی وجہ سے کشمیر میں خاموشی تو ہے، مگر اس کو قبرستان کی خاموشی کہا جا سکتا ہے۔ کشمیر کے لاتعداد خاندان ابھی بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ 'حقیقی امن‘ انصاف کے قیام اور اس کے حصول سے ہی ممکن ہے ورنہ دکھیوں کو دکھ دینا کسی بھی ریاست یا حاکم کے لیے کبھی بھی بھاری پڑ سکتا ہے۔