Live Updates

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے گرینڈ ڈائیلاگ کے مؤقف پر لیگی رہنماؤں میں مشاورت کا آغاز

پارٹی کو اپنے بیانیے پر قائم رہنا چاہئیے تاہم اسے (اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ) ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہئیے ۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی رائے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 2 جون 2021 16:32

لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 02 جون 2021ء) : مسلم لیگ ن میں بظاہر دو بیانیے ہیں، ایک پارٹی قائد نواز شریف کا جس کے مطابق جارحانہ سیاست ہی بقا کا راستہ ہے جبکہ دوسرا پارٹی صدر شہباز شریف کا جس کے مطابق مفاہمتی سیاست میں ہی سب کی بھلائی ہے جس کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ ہونا چاہئیے۔ پارٹی ان دو بیانیوں میں بٹی ہوئی ہے، کچھ رہنما نواز شریف کے بیانیے کے حامی ہیں جن میں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز بھی شامل ہیں جبکہ شہباز شریف کے بیانیے کی حمایت کرنے والوں کی تعداد بھی نمایاں ہے۔

تاہم اب شہباز شریف کے گرینڈ ڈائیلاگ کے اس خیال پر پارٹی رہنماؤں نے آپسی مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ قومی اخبار ڈان نیوز میں شائع رپورٹ کے مطابق پارٹی کے سینئیر رہنماؤں کے حالیہ اجلاس میں مسلم لیگ ن نے پی ٹی آئی حکومت کے 2023ء کے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروانے کے منصوبے کو پوری طرح مسترد کردیا جبکہ شہباز شریف کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ایک گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کرنے کی تجویز کے سلسلے میں مختلف رائے دی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں شاہد خاقان عباسی، پرویز رشید، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، حمزہ شہباز اور خرم دستگیر شامل تھے جبکہ نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے لندن سے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی موجودگی کو یقینی بنایا۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کا داخلی اجلاس تھا اور آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزید اجلاس منعقد کیے جائیں گے جس میں فیصلہ کیا جائے گا کہ پارٹی اپنی مزاحمت کی پالیسی کو جاری رکھے یا اس میں کچھ لچک دکھائے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آئندہ انتخابات میں اوپن گراؤنڈ کے لیے بات چیت کرے۔

اجلاس میں پرویز رشید نے شرکا کو پارٹی کے ووٹ کو عزت دو اور سیاست میں اسٹیبلشمنٹ میں کی مداخلت نہ ہونے کے بیانیے کی کامیابی یاد دلائی۔ پرویز رشید نے کہا کہ مسلم لیگ ن تمام انتقامی کارروائیوں کے باوجود آج ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ انہوں نے اس تاثر پر بھی سوال اٹھایا کہ پارٹی کے اراکین پریشان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ قیادت اگلے انتخابات سے پہلے اہم لوگوں سے بات چیت کرے۔

رپورٹ کے مطابق پرویز رشید نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو ہمارے ٹکٹ کی اتنی مانگ نہیں ہوتی اور یہ حقیقت یہاں سب کو معلوم ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پارٹی کو اپنے بیانیے پر قائم رہنا چاہئیے تاہم اسے (اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ) ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہئیے ۔ اجلاس کے دوران مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے نواز شریف سے پارٹی میں نائب صدر مریم نواز کے ''قائدانہ عہدے'' کا تعین کرنے کی درخواست کی۔

انہوں نے کہا کہ جب پارٹی کی مرکزی قیادت جیل میں تھی تب مریم نواز نے پارٹی کی قیادت کی تھی اور کارکنوں کو متحرک کیا تھا، اب وہ گھر بیٹھی ہیں لہٰذا انہیں پارٹی میں کچھ فعال کردار ادا کرنا چاہئیے۔ رپورٹ کے مطابق سابق وزیر ریلوے سعد رفیق نے بھی بات چیت کے حق میں بات کی اور کہا کہ 2023ء میں 2018ء کے انتخابات دہرائے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مزاحمت کی سیاست پر نظرثانی کی جانی چاہئیے۔

حمزہ شہباز نے بھی گرینڈ ڈائیلاگ کی حمایت کی اور اس کی ضرورت پر زور دیا۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو کسی ''نااہل وزیر اعظم'' کو اقتدار میں لانے کی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو پارٹی کو اسے ایک راستہ فراہم کرنا چاہئیےاور آگے بڑھنا چاہئیے۔ بعد ازاں پارٹی اس معاملے پر بات چیت نہ کرنے پر راضی ہوگئی۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ نواز شریف نے اس اجلاس سے خطاب نہیں کیا۔
Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات