پی ٹی آئی بجٹ: کیا معاشی بہتری کے دعوے درست ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 11 جون 2021 20:20

پی ٹی آئی بجٹ: کیا معاشی بہتری کے دعوے درست ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2021ء) بجٹ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے پیش کیا، جس میں معاشی استحکام کے دعوے کیے گئے اور یہ بھی دعوی کیا گیا کہ اب ملک معاشی نمو کی طرف گامزن ہے۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کے لئے 900 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو گزشتہ سال کی نسبت 40 فیصد زیادہ ہیں۔ زراعت کے شعبے کے لیے بارہ ارب روپے، بجلی کی تقسیم کے لیے ایک سو اٹھارہ ارب روپے، وزارت ماحولیات کے پروجیکٹس کے لئے 14 ارب روپے، کرونا ایمرجنسی فنڈ کے لیے سو ارب روپے، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ اور صوبہ سندھ کے لیے خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے، جو بارہ ارب روپے کی ہے۔

پی ٹی آئی کو معاشی مشکلات ورثے میں ملیں

حکومت کا دعوی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو ن لیگ کی 'نا عاقبت اندیش معاشی پالیسیوں‘ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جو عوام کے لئے بھی مشکلات کا باعث بنیں۔

(جاری ہے)

شوکت ترین کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو تجارتی خسارہ بیس بلین ڈالر تھا، برآمدات سکڑ رہی تھیں اور درآمدات کا بل بڑھ رہا تھا لیکن اس کے باوجود 5.5 کی شرح نمو کا دعوی کیا گیا۔

وزیر خزانہ کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور یہ کہ بہت کوششوں کے بعد آج معیشت کو ترقی کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مالی سال دو ہزار اکیس بائیس کے لئے شرح نمو 4.8 فیصد رکھی گئی ہے اور آنے والے دو برسوں میں حکومت شرح نمو کو چھ سے سات فیصد تک لے جانا چاہتی ہے۔

مبالغہ آرائی؟

معروف معیشت دان ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ پر تو ایسی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی، جس سے کہا جا سکے کہ معیشت میں بہتری آئی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے اعداد و شمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ وزیر خزانہ صاحب جب آئے تھے تو انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کر کے معاملات حل کریں گے اور معیشت کو بہتری کی طرف لے کے جائیں گے لیکن ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات ہوئی ہے۔ لگتا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کیے بغیر ہی انہوں نے بہتری کی نوید سنا دی ہے۔

گراؤنڈ پر بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔‘‘

معاشی اشارے اور حکومتی دعوے

سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور کاروباری شخصیت سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ایک بھی معاشی اشارہ ایسا نہیں ہے، جو معیشت کی بہتری کی کہانی سنائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کے اعداد و شمار غلط ہیں، حکومت کہہ رہی ہے کہ شر نمو چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہو گی لیکن ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ شاید ایک اعشاریہ دو فیصد ہو جائے یعنی ورلڈ بینک امید کر رہا ہے کہ شاید اتنی شرح نمو ہو جائے لیکن اتنی کا بھی امکان نہیں ہے۔

2013 میں ایکسپورٹ پچیس بلین ڈالر تھی اور وہ آج بھی کم و بیش اتنی ہی ہے۔ ترسیلات زر کے بڑھنے کا یہ شور مچا رہے ہیں لیکن اس کا ذرا موازنہ فلپائن سے کیا جائے تو حقیقت سامنے آجائے گی۔ بالکل اسی طرح قرض اور جی ڈی پی کا تناسب بھی آپ دیکھ لیں تو وہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ تو یہ سارے معاشی اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معیشت خستہ حال ہے۔

‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بجٹ تقریر میں کوئی بھی بلندوبانگ دعوے کرے، حقیقت یہ ہے کہ معیشت بہتری کی طرف نہیں گئی ہے اور ایک عام آدمی کو اس میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہے۔

معاشی اشارے بہتر ہوئے ہیں

تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں معاشی اشارے بہتر ہوئے ہیں اور حکومت پر معاشی سے زیادہ سیاسی نوعیت کی تنقید کی جا رہی ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے ناقدین کو ن لیگ کی معاشی پالیسیاں بھی پیش نظر رکھنی چاہییں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ن لیگ نے دھڑا دھڑ قرضے لے کر انہیں غیر منافع بخش پروجیکٹس میں لگایا، مہنگی بجلی کے معاہدے کیے اور ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھا۔ اور اب پی ٹی آئی ان پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتوں کو دھچکا لگا ہے اور پاکستان کو بھی اس صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر اس صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان کی کارکردگی پھر بھی حوصلہ افزا ہے۔