کشور زہر ہ کی صدارت میں قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ کا اجلاس

کمیٹی میں اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے متعدد بلز پی ایس ڈی پی کے مطابق منظوری ایف پی ایس سی میں کم ترقی یافتہ علاقوں کے کوٹہ سسٹم پر بحث کی گئی ،کمیٹی نے حکومت کو ایک ماہ کے اندر حتمی فیصلہ کرنے کی ہدایت سرکاری افسران کی کارگردگی کو جانچنے کے لیے اے سی آر کے پیمانہ سے ہٹ کر انکی فیلڈ ،دفتر کی ورکنگ اور خفیہ رپورٹ پر انحصار کیاجارہا ہے ،علی محمد خان

پیر 23 اگست 2021 23:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اگست2021ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ میں وزیرمملکت پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ سرکاری افسران کی کارگردگی کو جانچنے کے لیے اے سی آر کے پیمانہ سے ہٹ کر انکی فیلڈ ،دفتر کی ورکنگ اور خفیہ رپورٹ پر انحصار کیاجارہا ہے ،ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او عوام کے خادم ہیں اور انکی ذمہ داری ہے کہ ایک دھوتی باندھنے والے شہری کی بھی اتنی عزت کریں جتنی وہ کسی اپنے آفیسر کی کرتے ہیں،اے سی آر فرسودہ نظام ہو چکا،اب سرکاری افسران کی کارگردگی کو جانچنے کے لیے خفیہ رپورٹس بھی منگوائی جائیں گی،کمیٹی میں اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے متعدد بلز پی ایس ڈی پی کے مطابق منظوری دیدی گئی،ایف پی ایس سی میں کم ترقی یافتہ علاقوں کے کوٹہ سسٹم پر بحث کی گئی ،کمیٹی نے حکومت کو ایک ماہ کے اندر حتمی فیصلہ کرنے کی ہدایت کر دی ،گزشتہ روز رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کی سربراہی میں کمیٹی کا اجلاس ہوا ،جس میں سلیم رحمن،علی نواز اعوان،عظمیٰ ریاض،رشید احمد خان،رانا ارادت شریف ،شہناز سلیم ملک،غلام علی تالپوراور محسن داوڑ کے علاوہ وزیر مملکت علی محمد خان،سیکرٹری اسٹبلشمنٹ ،سیکرٹری ایف پی ایس سی،وزار ت قانون کے افسران کے علاوہ دیگر نے شرکت کی،اس موقع پر کمیٹی کو اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے بتایا گیاکہ کہ سات پراجیکٹس ایسے ہیں جن پر کام کرنا ناگزیر ہے اور انکی لاگت کا تخمینہ بھی لگوا لیا گیا ہے ،کمیٹی نے پی ایس ڈی پی میں رکھے گئے پراجیکٹس کی منظوری دیدی،دوسری جانب سیکرٹری ایف پی ایس سی حمیرہ احمد نے کمیٹی کو بتایا کہ کوٹہ سسٹم پر ہی عمل درآمد ہو گا،قانونی ماہر نے کمیٹی کو بتایا کہ جب تک میٹنگ نہیں ہوتی اس وقت تک فیصلہ نہیں کیا جا سکتا،وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ یہ معاملہ کابینہ میں آئے تاکہ معلوم ہو کہ میٹنگ کیوں نہ ہو سکی،علی محمد خان نے کہا میں ذاتی حیثیت سے کوشش کرتا ہوں کہ میٹنگ کا انعقاد جلد کیا جا سکے،کشور زہرہ نے کہا کہ ہم صبر کر لیتے ہیں امید ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ملے گا،علی محمد خان نے کہا کہ ٹرائبل کے علاقے میں دہشت گردی کے باعث تباہ ہوئے ہیں،بلوچستان اور سندھ کے دہی علاقے اور جنوبی پنجاب کے علاقوں میں کوٹہ سسٹم نہ ہونے سے محروم ہیں،عالیہ کامران نے کہا کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کو ترقی یافتہ کے برابر لانا چاہیئے،مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگلی میٹنگ میں بھی کوئی حل نکل آئے،ارکان نے کہا کہ اس کو منظور کر لیتے ہیں،توبعد میں اسمبلی میں دیکھا جائے گا،محسن داوڑ سے علی محمد خان نے مخاطب کو کر کہا کہ آج آپ خاموش خاموش ہیں خریت تو ہے،محسن داوڑ نے کہا میں بول رہا ہوں کوئی سن نہیں رہا،ارکان نے کہا کہ کمیٹی کی سفارشات چلی جائیں ،عالیہ کامران نے کہا قانون ڈویڑن نے جو لیکونا لیا اس سے لگتا ہے کہ یہ اگلے دس سال بھی منظور نہیں ہو گا،وزیر مملکت پارلیمانی امور نے کہا کہ اگر کمیٹی سفارشات دے دیتی ہے تو پھر وزارت قانون مخالفت نہ کر دے،کمیٹی نے کوٹہ سسٹم پر میٹنگ کر کے ایک ماہ میں کمیٹی کو بتایا جائے،دوسری جانب متعدد ارکان نے کہا کہ کمیٹی کوٹہ سسٹم پر متفق ہے،ایک اور بل میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت کا لفظ جہاں جہاں لکھا ہوتا ہے وہ کابینہ کو چلا جاتا تھا اب کابینہ کی بجائے اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کے پاس پاور جائے،اس پر ارکان نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کی بجائے وزیر انچارج کے پاس جانا چاہیے،علی محمد خان نے کہا کہ اس بل کا مطلب کہ ہر چھوٹا موٹا کام وزیراعظم یا کابینہ کے پاس نہ جائے،اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کے انچارج بھی وزیراعظم ہی ہوتے ہیں ،کشور زہرہ نے کہا کہ وزرا بھی عوامی نمائندے ہوتے ہیں ،اس پر کمیٹی نے تجویز دی کہ اسٹبلشمنٹ ڈویڑن کی بجائے منسٹر انچارج کی منظوری لی جائے گی،سیکرٹری ایف پی ایس سی حمیرہ نے کمیٹی کو بتایا کہ کمیشن ایک چیئرمین اور گیارہ ممبران پر ہوتا ہے،636سٹاف ہے،اور چاروں صوبوں میں دفاتر بنائے گئے ہیں،جی بی کے لیے بھی ہم کام کرتے ہیں کیونکہ انکے پاس پبلک سروس کمیشن نہیں ہے،سی ایس ایس کے لیے بارہ سروس کے گروپ ہیں،گزشتہ سال چالیس ہزار بچوں نے اپلائی کیا تھا اور 18000ہزار بچوں نے امتحان دیا تھا،پنجاب میں 48ویکنسیاں مینارٹی کی خالی پڑی ہیں،خواتین سیٹوں پر بات کرتے ہوئے ارکان اسمبلی نے کہا کہ اب تو خواتین کے مسائل اور بڑھتے چلے جار ہے ہیں ،علی محمد خان نے کہا کہ پاکستان میں خواتین محفوظ ہیں،اکا دکا واقعہ ہوتا ہے تو ان کا بھی فوری محاسبہ کیا جاتا ہے،ایف پی ایس سی کے امتحانات میں فیل ہونے پر ارکان نے کہا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے کیوں نہ کہ اردو میں ہی امتحان لیے جائیں ایک بچہ سو فیصد دوسرے مارک لے رہا ہے اور انگریزی میں چالیس نہیں لے سکا تو اسے فیل کر دیا جاتا ہے،وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ 5لاکھ وفاقی ملازمین ہیں،چار ہزار ملازمین ڈائریکٹ اسٹبلشمنٹ کو رپورٹ کرتے ہیں،اب کابینہ کی میٹنگ پیپر لیس ہو رہی ہے،کم افسران سے زیادہ کام کرنے کا ارادہ ہے،ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نوکریاں دیں گے یا نوکریاں پیدا کریں گے،اے سی آر کے سسٹم کو سپلیمنٹ کرنا ہو گا،ایک بچہ بچی جب آفیسر لگتا ہے تو اس کو مزید جانچنے کا کیا طریقہ ہے، ترقیوں کا عمل بھی رپورٹ پر ہونا چاہیے،ڈپٹی کمشنر،ڈی پی او عوام کا خادم ہونا چاہیے،کوئی دھوتی باندھنے والا بھی جائے تو اس کی بھی عزت و احترام سے پیش آیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔ظفر ملک