بغیر کسی مزاحمت کے افغان فوج کے شکست کی ایک بڑی وجہ امریکی فوج پر کچھ زیادہ انحصار تھا،ڈاکٹرشاہد امین

افغان پر حکومت کرنا اب آسان نہیں کیونکہ طالبان کے پاس حکومتی تجربہ کم ہے اور ملک کو شدید معاشی چیلنجز درپیش ہیں،ڈاکٹر خالد عراقی

جمعہ 10 ستمبر 2021 18:01

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2021ء) پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر شاہد امین نے کہا کہ طالبان نے ایک عظیم فوجی جیت حاصل کی جس پر پوری دنیا حیران ہے، دنیا حیران ہے کہ تین لاکھ کی افغان فوج جو دنیا کی بہترین تربیت کی حامل تھی وہ بغیر کسی مزاحمت کے سرنڈر کر گئی اور افغان فوج کا امریکی فوج پر انحصار کچھ زیادہ تھا جو اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔

امریکی فوج کے اچانک انخلا اور افغان فوج کی اندرونی کمزوریوں کہ وجہ سے بھی طالبان اتنی جلدی کابل پر قابض ہو گئے اور افغان فوج کے اندرونی حلقوں میں بھی طالبان کی حمایت تھی۔ افغانستان میں 40 سال جنگ ہوئی جس سے عوام مایوس تھے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر انھوں نے ایک مظبوط فیصلہ کرکے امریکہ کو 20 سالہ جنگ سے نکالا اور انھیں تاریخ یاد رکھے گی۔

(جاری ہے)

ان کو اپنی پارٹیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ اس جنگ میں واضح شکست کھا گیا جس سے اس کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے زیر اہتما م اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کے اشتراک سے پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی میں منعقدہ خصوصی سیمینار بعنوان : ’’افغانستان کی بدلتی صورتحال : پاکستان پراثرات اور امکانات‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر شاہد امین نے مزید کہا کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کے بعد خوش آئند بیانات کے ذریعے دنیا کو اچھا پیغام دیا جس میں انھوں نے خواتین کے تعلیم کو جاری رکھنے کا اعلان کیا اور ان کو حجاب کے ساتھ کام کرنے کی بھی اجازت دی۔ ان کی جانب سے عام معافی کا اعلان بھی خوش آئند تھا اور انھوں نے دوسرے مذاہب کی آزادی کو بھی تسلیم کیا۔ان کے بیانات انتہائی مثبت تھے مگر عبوری کابینہ کے اعلان سے ان کے بیانات کی نفی ہوتی ہے۔

شاہد امین نے کہا کہ طالبان نے جب پہلی بار حکومت بنائی تو اسے شمالی اتحاد اور غیر پختون آبادی نے تسلیم نہیں کیا۔ غیر پختون آبادی جن میں تاجک، ازبک اور ہزارہ شامل ہیں مگر اس بار بھی طالبان نے ان کو شامل نہیں کیا ہے جس سے ایک بار پھر خانہ جنگی ہونے کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ ماضی میں روسی انخلا کے بعد سے طالبان حکومت کے دوران بھی شمالی اتحاد کی جانب سے طویل خانہ جنگی جاری رہی۔

بدقسمتی سے عبوری حکومت کا اعلان افسوناک ہے کیونکہ اس میں صرف طالبان شامل ہیں حالانکہ ایک مخلوط حکومت کے قیام کے لئے طویل مذاکرات ہوئے جس میں حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ بھی شریک تھے مگر اس کا کو ئی نتیجہ نہیں آیا۔اس موقع پر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ٓاج کا موضوع انتہائی اہم ہے ۔ڈاکٹر شاہد امین پاکستان کے بہترین سفارتکاروں میں سے ایک ہیں۔

اب ہم پرانے اور نئے طالبان کی بات کررہے ہیں، سوال یہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت کو کیا دنیا تسلیم کرے گی یا نہیں،ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جو گلوبل ولیج ہے اور سیاسی و سفارتی تنہائی میں کوئی بھی ملک نہیں رہ سکتا۔ طالبان کو دنیا بھر سے سفارتی تعلقات استوار کرنے ہونگے۔ روسی مداخلت کے بعد افغان جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن پر آگیا اور اس سے پاکستان کوکئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

افغان جنگ سے پاکستان میں شدت پسندی اور کلاشنکوف کلچر نے جنم لیا اور لاکھوں مہاجرین کا مسلہ بھی پیش آیا۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنی پالیسی میں یوٹرن لیا اور طالبان حکومت کے خلاف امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا۔ ہمیں وہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس سے پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ ہو۔ہمیں افغان پالیسی سوچ سمجھ کر بنانی ہوگی۔

افغان پر حکومت کرنا اب آسان نہیں کیونکہ طالبان کے پاس حکومتی تجربہ کم ہے اور ملک کو شدید معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔افغانستان میں امن کے قیام میں پاکستان، روس اور چین کا کردار اہم ہے۔انچارج پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی ڈاکٹر ارم مظفر نے کہا کہ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال تمام ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔

قیام پاکستان کے بعد سے اب تک افغانستان کے حالات کا پاکستان پر گہرا اثر رہا ہے اور سیکیورٹی کے خدشات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ چاہے سویت کا افغانستان پر حملہ ہو یا امریکہ کی افغانستان پر یلغار تمام حالات و واقعات سے پاکستان بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اسی طرح موجودہ حالات میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان حکومت کے قیام کا بھی پاکستان کی سیکیورٹی سمیت سیاسی اور معاشی صورتحال پر گہرا اثر پڑے گا۔

پاکستان کے سامنے اس وقت دو اہم ترین سوال ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا سامنا کیسے کرنا ہے اور پالیسی کس قسم کی ہونی چاہئے۔ ہم نے دو قابل اسکالرز کو دعوت دی ہے جن کا جمہوریت پر تجربہ اور تحقیقی کام کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید ہے کہ لیکچر کے اختتام پر سوال جواب کا مرحلہ اہمیت کا حامل ہو گا۔نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نے افغانستان کی تاریخ اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے تفصیلی پریزنٹیشن کے ذریعے شرکاء کو آگاہ کیا۔

چیئر مین شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی ڈاکٹر نعیم احمد نے کلمات تشکر اداکرتے ہوئے افغانستان کی بدلتی صورتحال اور پاکستان پر اس کے مثبت اور منفی اثرات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔