آزاد عدلیہ ہی ہر طرح کے دبائو سے آزاد رہ سکتی ہے، جج کو حکومت، سیاسی گرہوں اور کسی دوسرے جج کے دبائو سے بھی آزاد رہنا چاہئے،جسٹس مقبول باقر

مقدمات میں مخصوص ججز کو تفویض کرنا عوام کی نظر میں عدلیہ کو داغ دار بنا دیتا ہے اس طرح کے عمل سے عوام کی نظر میں عدلیہ کا تشخص مسخ ہوجاتا ہے،عدلیہ کی آزادی ایک جج کی انفرادی آزادی اور سوچ سے مشروط ہے کے عنوان سے سندھ ہائی کورٹ بار میں منعقدہ تقریب سے خطاب

ہفتہ 16 اکتوبر 2021 16:34

آزاد عدلیہ ہی ہر طرح کے دبائو سے آزاد رہ سکتی ہے، جج کو حکومت، سیاسی ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2021ء) سپریم کورٹ کے جج جسٹس مقبول باقر نے کہاہے کہ آزاد عدلیہ ہی ہر طرح کے دبائو سے آزاد رہ سکتی ہے، جج کو حکومت، سیاسی گرہوں اور کسی دوسرے جج کے دبائو سے بھی آزاد رہنا چاہئے،مقدمات میں مخصوص ججز کو تفویض کرنا عوام کی نظر میں عدلیہ کو داغ دار بنا دیتا ہے اس طرح کے عمل سے عوام کی نظر میں عدلیہ کا تشخص مسخ ہوجاتا ہے۔

ہفتہ کوسندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدلیہ کی آزادی ایک جج کی انفرادی آزادی اور سوچ سے مشروط ہے کے عنوان سے تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے خصوصی شرکت کی، لیکچرتقریب میں سندھ ہائیکورٹ ججز اور وکلا کی بڑی تعداد بھی موجود تھے۔ تقریب سے جسٹس مقبول باقر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں میں عدلیہ کا اہم کردار ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ایک وسیع تصور ہے۔ عدلیہ کو طاقت کے مراکز سے بے خوف ہو کر فیصلے کرنے چاہیں۔ بینچ میں اختلاف رائے کو کچلنے سے نظام عدل کی بنیادیں ہل جاتی ہے۔ اس طرح کے رویے سے عدلیہ پرعوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ غیر جانبدارنہ سوچ رکھنے والے جج کو حساس مقدمات سے علیحدہ کردینا اس سے عدلیہ کے تقدس پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔

حساس مقدمات میں مخصوص ججز کو تفویض کرنا عوام کی نظرمیں عدلیہ کو داغ دار بنا دیتا ہے۔ اس طرح کے عمل سے عوام کی نظر میں عدلیہ کا تشخص مسخ ہوجاتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اگر ججز کی مدت ملازمت کے فیصلے پسند نا پسند کی بنیادی پر کیے جائیں تو عدلیہ تباہ ہوجائے گی۔ مخصوص طبقات کو فیصلے پسند نہ آنے کی بنیاد پر ترقی یا تعیناتی بھی عدلیہ کے لئے نقصان دہ ہے۔

عدلیہ میں کیسز کی تقسیم بھی عدلیہ کی آزادی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ کیسز کی تقسیم عدلیہ کے اندرونی ماحول کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی گائیڈ لائن اہم ہے یہ گائیڈ لائنز جج کو عدلیہ کی اندرونی مداخلت سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایک جج کو معاشی سیاسی اور طبقاتی تعصبات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ ججز کے میرٹ پر فیصلے ہی آزاد عدلیہ کا بنیادی اصول ہے۔

عدلیہ کی آزادی کا معیار ججوں کی تقرری اور اس کے طریقہ کار سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لئے ہر جج انفرادی طور پر مداخلت سے آزاد ہو۔ ہر جج کو کھلے ذہن کے ساتھ بلاتعصب فیصلے کرنے چاہیے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئے۔ ہمیں عام آدمی کی پریشانی کا بھی احساس ہونا چاہیے۔ جسٹس مقبول باقر نے مزید کہا کہ آنکھیں بند کرکے انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا۔

اگر انتظامیہ یا حکومت اختیارات سے تجاوز کرے تو عدلیہ ہی ریاست اور شہری کے درمیان فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے آزاد عدلیہ ضروری ہے۔ آزاد عدلیہ صرف عدالت کے لئے نہیں بلکہ قوم کے لئے بھی ناگزیر ہے۔ موثر انصاف کی فراہمی اس وقت ہوگی جب عدلیہ پر عوام کا اعتماد ہوگا۔ عدلیہ کی آزادی صرف انتظامیہ کے اثر اور دبا سے آزادی نہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آزاد عدلیہ ہی ہر طرح کے دبا سے آزاد رہ سکتی ہے۔ جج کو حکومت، سیاسی گروہوں اور کسی دوسرے جج کے دبا سے بھی آزاد رہنا چاہیے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جج کو آزادانہ سوچ کے ذریعے فیصلے کرنے چاہیے۔ بینچ کے ہر رکن کا الگ ویو ہوسکتا ہے اسے اپنی سوچ کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ امن کے قیام سے معیشت تک غیر آئینی اقدامات روکنے میں عدلیہ کا مخصوص اور آئینی کردار ہے۔

آئین کی بالادستی اور آئین پر عمل درآمد کرانے میں بھی عدلیہ کا اہم کردار ہے۔ عام آدمی کو پریشانی اور تکلیف ہو تو وہ بھی عدلیہ کی طرف دیکھتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آزاد عدلیہ ہی شہریوں کے بنیادی حقوق دلوا سکتی ہے۔ شہری اور ریاست کے مابین تنازعہ ہو تو عدلیہ ہی اسے حل کرتی ہے۔ جج کی آزادی بھی عدلیہ کی ہی آزادی ہے۔ صدر سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی بیرسٹر صلاح الدین احمد نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ جسٹس مقبول باقر نے سپریم کورٹ میں کئی اہم فیصلے دیئے۔

تاریخی فیصلوں پر جسٹس مقبول باقر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ عدلیہ کی آزادی کے ساتھ جج کی آزادی بھی ضروری ہے۔ ایک جج کو فیصلوں اور سوچ میں بھی آزادی ہونا ضروری ہے۔ ججز کو اندرونی اور بیرونی دبا کا سامنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کئی اچھے ججز گزرے تو بہت سوں کو اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے جس پر جسٹس مقبول باقر کو آج دعوت دی گئی تھی۔ آج عدلیہ کی آزادی سے متعلق اہم ترین دور ہے۔ عدلیہ کو اندرونی اور بیرونی دبا کا سامنا ہے۔ عدلیہ کو اس کرائسسز سے کیسے نکالا جا سکتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر ان ججز میں سے ہیں جو اس صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر رہنمائی کریں، ہم اس صورتحال سے کیسے نکلیں۔