استاد وہ جو لنگڑے گھوڑے کو دوڑا دے

DW ڈی ڈبلیو اتوار 17 اکتوبر 2021 18:00

استاد وہ جو لنگڑے گھوڑے کو دوڑا دے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اکتوبر 2021ء) ہم چاہے عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں اسکول کی یاد ہمیشہ ہمارے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے. لیکن ہر شخص کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا یقیناً بہت سے لوگوں کے لیے اسکول سوائے تلخ یادوں کے اور کچھ نہیں۔ اپنے ہم جماعتوں کے ہاتھوں مذاق کا نشانہ بننے یا پھر استاد کی سزا کے علاوہ شاید ہی کوئی اچھی یاد ان کے ذہن کے دریچے پر دستک دیتی ہو۔

کیونکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ پڑھائی میں کمزور بچوں کو خصوصی توجہ دینے کی بجائے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور مختلف قسم کے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ نا صرف اساتذہ بلکہ والدین کا رویہ بھی اکثر انتہائی تضحیک آمیز ہو جاتا ہے۔

غلط رویہ

اساتذہ کا خیال ہوتا ہے کہ پڑھائی میں دل نہ لگانے والے بچے انتہائی لاپرواہ ہیں اور ان کو پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں۔

(جاری ہے)

لہٰذا ان کی خصوصی توجہ کا مرکز وہ شاگرد ہوتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی پڑھائی میں بہترین ہوتے ہیں۔ اور ان کی کارکردگی قابل رشک ہوتی ہے۔ اساتذہ کے پڑھائے گئے اسباق کو بغیر کسی دقت کے سیکھ لیتے ہیں۔ لہٰذا تمام اساتذہ کرام کے منظور نظر ٹھہرتے ہیں اور ان کی تمام عنایات کے مستحق بھی یہی شاگرد ہوتے ہیں۔ والدین سے ملاقات کے دوران بھی اساتذہ کرام ایسے بچوں کی تعریفوں کے پل باندھتے نظر آتے ہیں۔

جب کہ دوسری جانب وہ بچے ہیں جنہیں پڑھائی میں دقت ہوتی ہے, ایسے بچے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایسے بچوں کے ساتھ برعکس رویہ رکھا جاتا ہے۔ اساتذہ کی جانب سے انہیں لاپرواہ ، نکمے، کند ذہن جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔ آئے دن کی سزائیں مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ انہیں مزید ضدی بنا دیتی ہے۔ والدین سے شکایات لگائی جاتی ہیں کہ اس کا دھیان پڑھائی کی طرف نہیں ہے۔

ساتھ ہی ایسے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے یا گھر میں مزید توجہ دینے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً والدین بھی ایسے بچوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ،'' تم نے تو ہماری ناک کٹوا دی، دیکھو تمہارا فلاں دوست کتنے اچھے نمبر لے کر پاس ہوا ہے اور ایک تم ہو، نالائق کچھ تو شرم کرو۔‘‘

ہمارے بچوں کی تعلیم بمقابلہ ولایتی بچوں کی تعلیم

بچے کی نفسیات پر اثرات

والدین کو شاید یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ایسے تمام جملے ایک بچے کے اعصاب پر کیسا اثر ڈالیں گے اور اس کا کوئی مثبت نتیجہ نکلے گا بھی یا نہیں۔

طعنے دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیوں کا ہتھیار بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مختلف پابندیاں لگانے یا بچے کو دی گئی سہولیات چھین لینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد والدین یا اساتذہ کا خیال ہوتا ہے کہ شاید بچہ کچھ اثر لے گا اور پڑھائی پر دھیان دینے لگے گا۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ان کی خام خیالی ہے۔ آج تک ان تمام دھمکیوں اور مار پیٹ نے کبھی کسی بچے کو لائق فائق شاگرد نہیں بنایا۔

ہاں البتہ دھکا اسٹارٹ گاڑی کی طرح ان کی تعلیم بمشکل چلتی رہتی ہے۔ جب کہ حقیقتاً ایسے بچے اساتذہ اور ہمارے تعلیمی نظام کی ناکامی کا ثبوت ہوتے ہیں۔

اساتذہ کا کام بچے میں علم منتقل کرنا ہے۔ اگرکوئی ایک طریقہ کارگر نہ ہو تو کوئی دوسرا طریقہ آزمانا چاہیے۔ بچوں کو پڑھائی میں درپیش مشکلات اور دشواریوں کو پہچاننا پہلا مرحلہ ہے۔

پھریہ طے کیا جائے کہ کون سا بچہ کس طریقے سے علم حاصل کر پائے گا۔ ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ اگر ایک بچہ اس طرح سے نہیں سیکھ پاتا جس طرح سے ہم سکھاتے ہیں تو پھر اس بچے کو ویسے سکھائیے جس طرح وہ سیکھ پائے۔ یعنی اگر کوئی بچہ سیکھنے میں ناکام ہے تو یہ اُس شاگرد کی نہیں بلکہ اس کے استاد کی ناکامی ہے۔

استادوں کے لیے چیلنج

یہ بات درست ہے کہ لائق بچوں کو پڑھانا آسان ہوتا ہے۔

اگر ایک جماعت کے 60 فیصد بچے استاد کے سمجھائے گئے نظریات بآسانی سمجھ لیتے ہیں لیکن باقی کے چالیس فیصد بچوں کو دشواری پیش آ رہی ہوتی ہے تو اس میں قصوروار ان بچوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ جبکہ دیکھا جائے تو استاد کا اصل چیلنج 40 فیصد بچے ہی ہیں۔ لیکن اگر کوئی استاد 60 فیصد بچوں کو اپنی بات پہنچا کر مطمئن ہے، لیکن پڑھائی میں دشواری محسوس کرنے والے بچوں کی مدد نہیں کر پاتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر پا رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسکول کی ایک جماعت میں صرف 5 فیصد بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں کند ذہن یا غبی کہا جا سکتا ہے۔ جبکہ باقی تمام نالائق کہلانے والے بچے وہ ہوتے ہیں جنہیں کوئی اور دشواری تھی جسے والدین اور استاد سمجھ نہیں پائے۔

ایک استاد کی بنیادی ذمہ داری میں یہ بات شامل ہے کہ وہ اپنی جماعت میں موجود بچوں کی صلاحیتوں اور دشواریوں سے پوری طرح سے واقف ہو۔

بچے کی حالت اور دشواریوں کی جتنی جلدی تشخیص ہو گی اسی قدر بچے کے لیے پڑھائی کی دشواریوں پر قابو پانا آسان ہوگا۔ اگرایک استاد یہ جان جائے کہ بچے کو کہاں مشکل درپیش ہے تو وہ اس کی بہتر انداز میں مدد کر سکتا ہے. اس معاملے میں والدین کو بھی استاد کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ صرف طعنے دینے یا ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ تشخیص کے بعد بچے کی مدد کرنا ہو گی تاکہ وہ اپنی راہ میں حائل مشکلات پر قابو پا سکے۔

دوسری طرف ہمارے تعلیمی نظام کی کمزوریاں والدین اور اساتذہ کے لیے ایک چیلنج ہیں۔ 30 سے 40 طالب علموں پر مشتمل کلاس میں ہر بچے پر انفرادی توجہ دینا یقیناً ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ لیکن والدین اور اساتذہ کے باہمی تعاون سے اس مشکل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

خدارا، اپنی اولاد کے ساتھ ایسا مت کیجیے!

بنیادی تعلیم و تربیت

اسکول کے ابتدائی ایام بچوں کی زندگی میں بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

یہ دور اس بچے کی پوری زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ پڑھائی کے درست طریقہ کار سے عدم واقفیت کی بنا پر یا پھر کسی دیگر صحت کی کمزوری کی بنا پر بچہ پڑھائی میں دشواری محسوس کرتا ہے۔ اپنے دیگر ہم جماعتوں سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ ساتھ ہی گریڈ کی بے مقصد دوڑ میں بھی پیچھے رہ جاتا ہے۔ لیکن والدین اپنے بچے کو اسی دوڑ میں شامل کرنے کے لیے ہلکان ہوئے رہتے ہیں۔

مسابقت اس دور کی ایک تلخ حقیقت ہے جو عملی زندگی میں انتہائی بے مقصد ثابت ہوتی ہے. بچے کی تربیت بہتر نہ ہو تو کوئی فکر کی بات نہیں۔ اگر وہ علم حاصل نہ کر پا رہا ہو تو بھی کوئی فکر کی بات نہیں لیکن اگر اس کے امتحان میں نمبر کم آجائیں تو اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ تمام والدین یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے کے نمبر دوسرے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ ہوں۔

اس دوڑ میں شامل بچے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بروئے کار نہیں لاپاتے۔ نتیجتاً یہ صورتحال ان کے اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہے اور وہ ان خوشیوں سے محروم ہو جاتے ہیں جن سے کسی بچے کا بچپن عبارت ہوتا ہے۔ ایسے بچے جوان ہونے پر خشک مزاج انسان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور معاشرے کا ایک مفید رکن ثابت نہیں ہوتے۔

پاکستان، یکساں تعلیمی مواقع کی کمی اور غریب بچوں کا المیہ

خصوصی توجہ کے طالب

تشخیص ہونے کے بعد استاد کا ان بچوں کے ساتھ کلاس روم میں رویہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔

چھوٹے چھوٹے سوالات کر کے ان میں خود اعتمادی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ایسے بچے جو کلاس میں غیر حاضر دماغ رہتے ہیں ان کو مسلسل کسی نہ کسی سرگرمی میں مشغول رکھا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات اساتذہ کرام کلاس میں خاموشی پر اس قدر زور دیتے ہیں کہ کلاس کا تعلیمی ماحول قبرستان جیسی خاموشی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ سخت گیر اساتذہ کرام کی کلاس میں خاموشی تو ملے گی لیکن تعلیمی ماحول سازگار نہیں ہوگا۔

جبکہ طالب علم کو سمجھنے اور تعاون کرنے والے استاد کی کلاس کا ماحول بالکل مختلف ہوتا ہے۔ استاد کی جانب سے کی گئی حوصلہ افزائی اس کے اعتماد کو بڑھاتی ہے اور بچے میں محنت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

پڑھائی میں کمزور بچوں کو تعلیم دینے میں صبر کا دامن تھامے رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ بچے پر چیخنا، اُسے ڈانٹنا یا جلدی بہترنتائج کی توقع رکھنا ہرگز درست نہیں ہے۔ ایک استاد کی کامیابی یہ نہیں کہ اس کے لائق فائق ذہین طالب علم اچھا گریڈ حاصل کریں۔ بلکہ اصل کامیابی یہ ہے کہ ایک کند ذہن بچہ لائق طالب علموں کی صف میں آ کھڑا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ بڑی کامیابی یہ ہے کہ ایسا بچہ اپنی عملی زندگی میں نمایاں کامیابی حاصل کر سکے۔

متعلقہ عنوان :