زراعت سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی، ایف اے او

یو این جمعہ 4 جولائی 2025 02:00

زراعت سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی، ایف اے او

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 جولائی 2025ء) ڈھلتی عمر میں بہت سے لوگوں کے لیے زرعی زمین محض خوراک پیدا کرنے کا ذریعہ ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑھاپے میں واحد تحفظ کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور اسی لیے وہ اپنی زمین کو کبھی نہیں چھوڑتے جس کا ایک نتیجہ آئندہ نسلوں کے لیے اراضی تک محدود رسائی اور زرعی پالیسی سازی میں عدم نمائندگی کی صورت میں نکلتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) نے بتایا ہے کہ زمین کے بغیر نوجوانوں کو زرعی پیداکار بننے کے لیے درکار وسائل تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 2005 اور 2021 کے درمیان زرعی غذائی روزگار سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد میں 10 فیصد کمی آئی جس سے دنیا بھر میں خوراک کی پیداوار کے حوالے سے خدشات نے جنم لیا۔

(جاری ہے)

Tweet URL

ادارے نے یہ بات زرعی غذائی نظام میں نوجوانوں کی صورتحال پر جاری کردہ اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بتائی ہے جس میں نوجوان زرعی پیداکاروں کو درپیش مسائل کا تذکرہ بھی شامل ہے۔

'ایف او اے' میں زرعی تبدیلی اور صنفی مساوات سے متعلق شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر لارین فلپس نے کہا ہے کہ نوجوان زرعی پیداکاروں، صارفین، خوراک کی پراسیسنگ کرنے اور زرعی خدمات مہیا کرنے والوں کی آئندہ نسل ہیں۔ اسی لیے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ وہ زرعی غذائی نظام سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے لیے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

نوجوان: تبدیلی کے عامل

دنیا بھر میں 15 تا 24 سال عمر کے 1.3 ارب لوگوں کی 46 فیصد تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔

اس وقت بالخصوص کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں زرعی غذائی شعبے سے وابستہ نوجوانوں کی تعداد 44 فیصد ہے جبکہ اس عمر کے لوگوں کی 85 فیصد تعداد بھی انہی ممالک میں رہتی ہے۔ تاہم، اس شعبے سے وابستہ 20 فیصد سے زیادہ نوجوانوں کے پاس رسمی ملازم، تعلیم یا تربیت نہیں ہوتی جس کا مطلب یہ ہے کہ زرعی غذائی نظام اور دیگر معاشی شعبوں میں ان سے پوری طرح کام نہیں لیا جا رہا۔

دنیا بھر میں ان نوجوانوں کو روزگار مہیا کر کے عالمگیر جی ڈی پی میں 1.5 ٹریلین کا اضافہ کیا جا سکتا ہے جس میں سے 670 ارب ڈالر زرعی غذائی شعبے سے آئیں گے۔

عارضی روزگار اور قلیل اجرت

'ایف اے او' کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو نے کہا ہے کہ نوجوان معاشی تبدیلی اور عالمگیر خوشحالی میں مدد دے سکتے ہیں۔ اگرچہ وہ زرعی غذائی شعبے اور عالمی معیشت میں تبدیلی کے اہم عامل ہیں لیکن انہیں اپنی اس صلاحیت سے کام لینے میں کئی طرح کے مسائل بھی درپیش ہیں۔

زرعی غذائی پیداکاروں کی اگلی نسل کو بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلےکا سامنا ہو گا جس کے لیے بڑی مقدار میں خوراک درکار ہو گی جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے خوراک کی ترسیل کو خطرات لاحق ہیں۔ 'ایف اے او' کا اندازہ ہےکہ 395 ملین نوجوان ایسے زرعی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں موسمیاتی اثرات کے باعث زرعی پیداواری صلاحیت میں کمی آنے کا خدشہ ہے۔

اگرچہ زرعی غذائی شعبے میں نوجوانوں کی بہت بڑی نمائندگی ہے لیکن ان میں بیشتر کے پاس اچھا روزگار نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 91 فیصد نوجوان خواتین اور 83 فیصد نوجوان مرد اس شعبے میں ایسے کاموں سے وابستہ ہیں جن سے انہیں بہت کم اور عارضی فائدہ ہوتا ہے۔

صلاحیت اور تعلیم کی ضرورت

لارین فلپس نے کہا ہےکہ کم اجرتیں اور خطرناک حالات اس شعبے میں نوجوانوں کی آمد میں رکاوٹ ہیں اور یہ مسائل شہری مراکز کی جانب نقل مکانی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جن کے ذریعے نوجوانوں کو صلاحیت اور تعلیم فراہم کی جا سکے تاکہ وہ زرعی غذائی شعبے میں باوقار روزگار حاصل کر سکیں۔

سماجی و مالیاتی سرمائے کی کمی نوجوانوں کے زرعی پیداکار بننے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پالیسی ساز عام طور پر نوجوانوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جنہیں قرضوں، بینکوں کی خدمات اور زمین تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنا پڑی ہے۔

بعض اوقات پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت رسمی ہوتی ہے۔

غیررسمی طریقہ ہائے کار یا کارکنوں کی باقاعدہ انجمنوں اور شراکتی تنظیموں یا اداروں کے ذریعے زرعی فیصلہ سازی میں نوجوانوں کو موثر نمائندگی دی جا سکتی ہے۔ رپورٹ میں تربیت کو وسعت دینے اور مالیاتی نظام کی ترتیب نو کے لیے بھی کہا گیا ہے تاکہ نوجوانوں کی رسائی کو بہتر بنایا جا سکے۔

کو ڈونگ یو نے بتایا ہے کہ نوجوانوں کی آوازوں کو سننے اور پائیدار و مشمولہ زرعی غذائی نظام میں ان کے کردار کو بڑھانے کے لیے 'ایف اے او' نوجوانوں کے ساتھ اور ان کے لیے اپنے کام میں اضافہ کرنے کا غیرمشروط عزم رکھتا ہے۔