یو این چیف کو غزہ کے انسانی بحران پر گہری تشویش

یو این جمعہ 4 جولائی 2025 02:15

یو این چیف کو غزہ کے انسانی بحران پر گہری تشویش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں شدت اختیار کرتے انسانی بحران پر سخت تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا ہے جہاں بہت بڑی تعداد میں شہری ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور ہیں جنہیں کہیں محفوظ ٹھکانہ میسر نہیں۔

ادارے کے ترجمان سٹیفن ڈوجیرک نے کہا ہے کہ حالیہ دنوں بے گھر لوگوں کی پناہ گاہوں اور امداد کے حصول میں سرگرداں لوگوں پر اسرائیل کے کئی حملوں میں بہت سے شہری ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

سیکرٹری جنرل نے انسانی جانوں کے ضیاع کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

Tweet URL

رواں ہفتے اسرائیلی فوج کے حکم پر ایک روز میں 30 ہزار سے زیادہ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی جنہیں ضرورت کے مطابق خوراک، ادویات، پینے کا پانی اور پناہ کا سامان میسر نہیں ہے۔

(جاری ہے)

خدمات کی فراہمی بند ہونے کا خطرہ

سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ 17 ہفتوں سے زیادہ عرصہ سے غزہ میں ایندھن نہیں آیا جس کے باعث شہریوں کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ان حالات میں ہسپتالوں کے انکیوبیٹر بند ہو جائیں گے، ایمبولینس گاڑیاں بیمار اور زخمی لوگوں تک نہیں پہنچ سکیں گی اور پانی کو قابل استعمال نہیں بنایا جا سکے گا۔

موجودہ حالات میں اقوام متحدہ اور اس کے شراکت داروں کی جانب سے امداد کی فراہمی بھی بند ہو جانے کا خدشہ ہے جبکہ اس کی مقدار پہلے ہی بہت محدود ہے۔

سیکرٹری جنرل نے انسانی امداد کی محفوظ اور متواتر فراہمی کے مطالبے کو دہرایا ہے تاکہ انتہائی ضرورت مند لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔

اقوام متحدہ کے پاس غزہ میں امداد کی فراہمی اور تقسیم کا واضح منصوبہ موجود ہے جس کی افادیت گزشتہ جنگ بندی کے دوران ثابت ہو چکی ہے۔ اس کے تحت ہر جگہ بڑی مقدار میں انسانی امداد محفوظ انداز میں پہنچائی جا سکتی ہے۔

سیکرٹری جنرل نے غزہ میں فوری و مستقل جنگ بندی اور حماس سمیت دیگر فلسطینی گروہوں کی قید میں تمام یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی کے مطالبے کو دہراتے ہوئے تمام فریقین کو یاد دلایا ہے کہ ہر طرح کے حالات میں بین الاقوامی قانون کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔

نقل مکانی کا بحران

بدھ کو اسرائیل کے حکام نے غزہ شہر سے لوگوں کو انخلا کے نئے احکامات جاری کیے جن سے 40 ہزار لوگ متاثر ہوں گے۔

اس علاقے میں ایک بڑی پناہ گاہ اور ایک طبی مرکز بھی موجود ہے۔ جس جگہ سے لوگوں کو نقل مکانی کے لیے کہا گیا ہے وہاں کے لیے مارچ کے بعد اب تک انخلا کا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔

جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ بھر کے لیے ایسے 50 سے زیادہ احکامات جاری ہو چکے ہیں جو مجموعی طور پر 78 فیصد علاقے کا احاطہ کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ اگر اس میں وہ علاقے بھی شامل کیے جائیں جہاں اسرائیل کی عسکری کارروائیاں جاری ہیں تو یہ 85 فیصد تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ گنجان آباد علاقے ہیں جہاں خدمات یا بنیادی ڈھانچے کی شدید کمی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ اس کی مثال کچھ یوں دی جا سکتی ہے جیسے نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ رہتے ہوں۔ اس جگہ بلند و بالا عمارتیں دکھائی دیتی ہیں جبکہ شمالی غزہ بڑی حد تک کھنڈر بن چکا ہے جہاں رہنے کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔

البانیزے رپورٹ

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیزے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ غزہ کے حالات تباہ کن ہیں جہاں 7 اکتوبر 2023 کے بعد 200,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔

علاقے میں لوگوں کو ناقابل تصور تکالیف کا سامنا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کے ذریعے مداد کی فراہمی گویا موت کا پھندا ہے جو بھوکے اور بمباری کا سامنا کرنے والے ایسے کمزور لوگوں کو ہلاک یا نقل مکانی پر مجبور کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے جن کا خاتمہ کیا جانا ہے۔

غزہ ’کاروباری تجربہ گاہ‘

انہوں نے کہا کہ اسرائیل اس تنازع سے کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے نئے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کو غزہ کے لوگوں پر آزمانے کا کام لے رہا ہے۔

فلسطینی علاقے پر دائمی قبضے نے اسلحہ ساز اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے ایک مثالی تجرباتی میدان فراہم کیا ہے، جہاں نگرانی نہ ہونے کے برابر ہے اور احتساب وجود نہیں رکھتا جبکہ سرمایہ کاروں، اور نجی و سرکاری اداروں نے اس جنگ سے خوب منافع کمایا ہے۔

فرانچسکا البانیزے نے کہا کہ اس صورتحال کو روکنا ہو گا۔ رکن ممالک اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کریں، اس کے ساتھ تمام تجارتی معاہدوں اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو معطل کریں اور مظالم پر جواب طلبی کو یقینی بنائیں۔

کاروباری اداروں کو انسانی قانون کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہونے پر قانونی نتائج کا سامنا ہونا چاہیے۔

نوٹ: غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔