میانمار: پانچ ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان

DW ڈی ڈبلیو پیر 18 اکتوبر 2021 17:40

میانمار: پانچ ہزار سے زائد سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2021ء) میانمار کی حکمراں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے پیر 18 اکتوبر کو اعلان کیا کہ سویلین حکومت کی برطرفی کے بعد ملک میں ہونے والے مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے سیاسی قیدیوں میں سے مجموعی طورپر 5636 افراد کو ”انسانی بنیادوں" پر رہا کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان مقید افراد کو 20 اکتوبر کو ملکی تہوار 'تھاڑینگ یوت‘ کے موقع پر رہا کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ تین روز قبل جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم (آسیان) نے من آنگ ہلینگ کو 26 سے 28 اکتوبر تک منعقد ہونے والی اپنی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔

فوجی جنتا کے سربراہ کا 'عہد'

من آنگ ہلینگ نے یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کی قیادت کی تھی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت نے میانمار میں جمہوریت کو بحال کرنے کا اپنا پانچ مرحلے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملک میں امن اور جمہوریت کے اپنے عہد پر قائم ہیں۔

انہوں نے قومی اتحاد حکومت(این یو جی) اور مسلح نسلی ”دہشت گرد گروپوں" پر میانمار کے بحران کو حل کرنے میں آسیان کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔

من آنگ ہلینگ کا کہنا تھا کہ وہ صرف مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ انہوں نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کے فیصلے کے تناظر میں مزید کہا،”آسیان کو ان کی جنتا پر الزام تراشی کرنے کے بجائے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

"

میانمار فوجی حکومت کے سربراہ آسیان سمٹ سے باہر کر دیے گئے

بغاوت مخالف جماعتوں کی نمائندگی کرنے والی جماعت این یو جی نے حکومتی فورسز کے خلاف ملک گیر احتجاج کی حمایت کی تھی اور فوجی جنتا کے سربراہ کو آسیان سربراہی کانفرنس میں مدعو نہ کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا۔

این یو جی کے ترجمان ڈاکٹر ساسا کا تاہم کہنا تھا،”آسیان کو ہمیں میانمار کے باضابطہ نمائندے کے طورپر تسلیم کرنا چاہئے۔

"

میانمار کی فوجی جنتا کے ترجمان زاو من ٹن نے آسیان سربراہی کانفرنس میں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ کو شرکت کی دعوت نہ دینے کے لیے امریکا سے لے کر یورپی یونین تک کو میانمار کے معاملات میں ”غیرملکی مداخلت" کے زمرے میں ٹھہرایا ہے۔

آسیان رہنماوں نے فوجی جنتا کے سربراہ کے بجائے کسی ”غیر سیاسی نمائندے" کو ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

آسیان کا کہنا ہے کہ وہ میانمار میں ”جمہوریت کی واپسی" کی خواہاں ہے۔

سوچی کے مقدمات

ملک کی سابق رہنما آنگ سان سوچی کے وکیل کا کہنا تھاکہ مقدمے کی سماعت کے دوران انہیں بولنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

فوجی جنتا نے سوچی پر بدعنوانی سمیت متعدد الزامات عائد کر رکھے ہیں، حالانکہ خاتون سیاسی رہنما کے حامیوں اور آزاد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فوج اقتدار پر اپنی گرفت مضبو ط کرنے کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہی ہے۔

میانمار: سوچی کے ’نمائشی‘ مقدمے سے فوج کیا چاہتی ہے؟

دریں اثنا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر میشیل بیچلیٹ کا کہنا ہے کہ بغاوت کے بعد سے میانمار کو تباہ کن پیش رفت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر عدم سلامتی کے خدشات لاحق ہوگئے ہیں، جن کے اس خطے پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے۔

ج ا/ ع ح (اے ایف پی، روئٹرز)