کوششوں کے باوجود ٹیکس ادائیگی کی شرح اطمینا ن بخش نہیں ہوسکی:میاں زاہد حسین

ٹیکس گزار گوشوارے جمع کروانے میں دلچسپی نہیں لے رہے

بدھ 20 اکتوبر 2021 17:38

کوششوں کے باوجود ٹیکس ادائیگی کی شرح اطمینا ن بخش نہیں ہوسکی:میاں زاہد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 اکتوبر2021ء) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت کی کوششوں کے باوجود ڈائریکٹ ٹیکس ادائیگی کی شرح اطمینا ن بخش نہیں ہو سکی جوملکی ترقی کے لئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ ایف بی آرکواضافی اختیارات ملنے کے باوجود ٹیکس گزارگوشوارے جمع کروانے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں جوتشویشناک ہے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس بیس پھیلانے کی سنجیدہ کوششوں کے با وجود ملک میں بہترلاکھ رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں میں سے صرف پچیس لاکھ یا پینتیس فیصد نے سال 2021کے لئے گوشوارے جمع کروائے ہیں۔

(جاری ہے)

ٹیکس گزاروں کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے ہی ایف بی آر کے محاصل میں انکم ٹیکس کاحصہ صرف پینتیس فیصد ہے۔

ابھی تک جرمانوں، گرفتاریوں، جیل اور بینک اکاؤنٹ سے یکطرفہ طور پر کٹوتی کے فیصلوں اور ترمیمی آرڈیننس کے باوجود صورتحال بہترنہیں ہورہی۔ ایف بی آرکونان فائیلرز کے بجلی اورٹیلی فون کے کنکشن منقطع کرنیکا اختیار بھی مل گیا ہے مگراس سے بھی ٹیکس چھپانے والوں کا حوصلہ کم نہیں ہوا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس جوجی ڈی پی کے تناسب کا صرف دس فیصد ہے اسے پندرہ فیصد پر لانا ضروری ہے۔

اس سلسلہ میں تمام حکومتوں نیاعلانات واقدامات کئے مگراسکا کبھی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکلا اوراسی وجہ سے ملک کو باربارقرضے لینا پڑتے ہیں۔ خسارے پرقا بو پانے، قرضے کا بوجھ ختم کرنے، صنعتی ترقی کے زریعے محاصل اورروزگار بڑھانیاورسماجی حالات وخدمات بہتر بنانے کے لئے متمول افراد کو ٹیکس کی ادائیگی پرراغب کرنا ضروری ہے کیونکہ قرضوں کی وجہ سے ملک کی خودمختاری اورآزادی داؤ پرلگی ہوئی ہے۔

میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ جب تک براہ راست ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے ان ڈائریکٹ ٹیکس پرانحصار رہے گا اس وقت تک صورتحال میں بہتری کی امید کرنا خود فریبی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ بالواسطہ ٹیکس سے مڈل کلاس اورغریب طبقے متاثرہوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ صحت اورتعلیم جیسی ضروری چیزوں پرکمپرومائیز کرنے لگتے ہیں جوملکی مستقبل کے لئے بہت ہی خطرناک ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے بالواسطہ ٹیکسوں کی مدد سے ترقی نہیں کی۔