د قسمتی سے پاکستان میں پچاس ملین سے زائد افراد زنک کی کمی کا شکار ہیں

اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے عوامی سطح پر غذائیت کے متعلق شعور بیدار کیا جائے تو بڑھتی ہوئی بیماریوں اور قوت مدافعت کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی

جمعہ 22 اکتوبر 2021 17:43

د قسمتی سے پاکستان میں پچاس ملین سے زائد افراد زنک کی کمی کا شکار ہیں
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 اکتوبر2021ء) بد قسمتی سے پاکستان میں پچاس ملین سے زائد افراد زنک کی کمی کا شکار ہیں اس صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے عوامی سطح پر غذائیت کے متعلق شعور بیدار کیا جائے تو بڑھتی ہوئی بیماریوں اور قوت مدافعت کی کمی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ان خیالات کا اظہار ماہرین نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور انسٹیٹیو ٹ آف سائل سائنسز کے اشتراک سے پاکستان میں زنک کی کمی کو گندم میں بائیو فورٹیفیکیشن سے دور کرنے کے عنوان پر منعقدہ سیمینا ر سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ ملک کی پچاس فیصد سے زائد آبادی غذائیت کی کمی کا سامنا کر رہی ہے جس کی وجہ سے بیماریوں  اور صحت کے بجٹ میں ہوشربا اضافہ ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پوری دنیامیں ون ہیلتھ (One Health) کے اصولوں کو اپناتے ہوئے انسانی و حیوانی صحت، ماحولیاتی اثرات اور زرعی ترقی کے حصول کے لئے مربوط لائحہ عمل تیار کیا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کومناسب ماحول اور صحت کی فراہمی کو یقینی بنا کربہتر سہولیات سے آراستہ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی ملکی سطح پر ہیومن نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹکس متعارف کروانے والی پہلی دانشگاہ ہے جس سے متاثر کو کر دور حاضر کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے متعدد جامعات نے بھی اس پروگرام کا اجراء کیا ہے جس سے غذائیت کی کمی جیسے چیلینجز سے عہدہ برآء ہونے کے لئے جدید علوم کی حامل تربیت یافتہ افرادی قوت پیدا کی جا سکے گی۔

انہوں نے کہا کہ زنک کی کمی کی وجہ سے پودوں کو بھی مختلف مسائل کا سامنا ہے، جس کو سامنے رکھتے ہوئے زرعی ماہرین کو دہقانوں میں آگاہی کے لئے مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہوں گی۔صوابی ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلرڈاکٹر شاہانہ عروج کاظمی نے کہا کہ زنک کی کمی بالخصوص بچوں میں جسمانی و ذہنی بڑھوتری پر اثر انداز ہو رہی ہے جس کے لئے  بہترین غذائیت سے بھر پور خوراک کی عادات کو پروان چڑھایا جائے تو صحت کے مسائل کم کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جدید رحجانات کو اپناتے ہوئے پاکستان میں بھی ون ہیلتھ کے متعلق کاوشوں میں تیزی لانا وقت کی اہم ضرورت ہے جس کے لئے سائنسدانوں اور پالیسی میکرز کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی زراعت، دیہی ترقی اور نیوٹریشن کے میدان میں بے پناہ خدمات کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ جامعہ اپنی سر گرمیوں میں وسعت لاتے ہوئے ملکی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے موجودہ زرعی مسائل کا پائیدار حل فراہم کرے گی۔

ڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر امان اللہ ملک نے کہا کہ غذائیت کی کمی کے باعث ملکی معیشت میں جی ڈی پی کو 3فی صد تک نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تاہم اگر عوام کوحفظانِ صحت اور طبی ماہرین کی سفارشات کے مطابق طرزِ زندگی کو اپنانے پر قائل کیا جائے تو غذائیت کے بحران سے نپٹا جا سکے۔  انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی زرعی مسائل اور کاشتکاروں کو ان کے حل کے لئے ان کی دہلیز پر تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے تاکہ نچلی سطح پر غربت کے خاتمے، منافع بخش زراعت اور فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔

انسٹی ٹیوٹ آف سائل سائنس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی میں کمی کا رحجان دیکھنے میں آ رہا ہے زرعی ماہرین کی سفارشات کو اپنایا جائے تو نہ صرف پیداواریت اور منافع میں اضافہ ہوگا بلکہ زرخیزی کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ڈی جی فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ڈاکٹر عمران پاشا نے کہا کہ انیس فی صد سے زیادہ پانچ سال کی عمر تک پہنچنے والے بچے زنک کی کمی کا شکار ہیں، انہوں نے کہا کہ غذائیت کی کمی پاکستان کو ہر سال 7.6 ارب ڈالر کے نقصان کا باعث بنتی ہے جو کہ ایک لمحہء فکریہ ہے۔

ڈاکٹر عامر مقصود نے کہا کہ اگر زیادہ زنک کی حامل گندم کی اقسام کو فروغ دیا جائے تو انسانی صحت پر فقدانِ زنک کے باعث مرتب ہونے والے منفی اثرات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر سال پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے دو لاکھ بچے غذائیت کی کمی کے باعث زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر جاوید احمد ڈائریکٹر ایوب ریسرچ، چوہدری عبدالحمید ڈائریکٹر ایگری ایکسٹینشن فیصل آباد اور ہارویسٹ پلس کمپنی کے منور حسین نے بھی خطاب کیا۔