سپریم کورٹ فیصلے کرنے میں آزاد ہے ،ججز نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق فیصلے کیے‘جسٹس گلزارا حمد

کسی کی ہمت نہیں ہمیں روکے ،آج تک کسی ادارے کی بات سنی اور نہ ہی کسی کے دبائو میں آیا، کسی نے کام میں مداخلت نہیں کی کوئی مجھے گائیڈ نہیں کرتا اپنا فیصلہ کیسے کروں ، یہی کردار باقی سارے ججز کا ہے،لوگوں میں غلط فہمیاں ، انتشار اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ،عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کر رہے ہیں‘ چیف جسٹس پاکستان

ہفتہ 20 نومبر 2021 21:24

سپریم کورٹ فیصلے کرنے میں آزاد ہے ،ججز نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 نومبر2021ء) چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ فیصلے کرنے میں آزاد ہے ،ہمیں روکنے کی آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی اور کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دبا ئوپر میں نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا، کسی نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی، کوئی مجھے گائیڈ نہیں کرتا کہ اپنا فیصلہ کیسے لکھوں ، یہی کردار باقی سارے ججز کا ہے،لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پیدا کریں اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں، بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ہی ،سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں، ساری عدلیہ تندہی سے لوگوں کے فیصلے کررہی ہے، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کریں گے اور اسی کا پرچار کریں گے، کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے اور ہم نے پہلے بھی چھوڑا ہے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمد نے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علی احمد کرد صاحب نے اگر میری عدالت کے بارے میں کوئی بات کی تو میں اس بات کو بالکل قبول نہیں کروں گا، میری عدالت میں جج انتہائی تندہی کے ساتھ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہے ہیں۔جسٹس گلزار احمد نے علی احمد کرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ شائع ہونے والے فیصلوں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ کیسے سپریم کورٹ آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے۔

ایک عمومی بیان دینا کہ عدلیہ آزاد نہیںیہ ٹھیک نہیں،اداروں کے دبائووالی بات درست نہیں، یہ تاثر درست نہیں کہ عدالتیں آزاد نہیں اور اداروں کے دبا ئومیں کام کررہی ہیں، ہم ایک حلف کے پابند ہیں، میں نے کبھی کسی ادارے کا دبا ئونہیں لیا اور نہ کبھی کسی کی بات سنی، مجھے نہ کسی نے گائیڈ کیا اور نہ ہی میں نے ڈکٹیشن لی کہ میں اپنا فیصلہ کیسے لکھوں، میں نے کبھی کسی کے کہنے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو آج تک مجھے کچھ کہنے کی جرات ہی ہوئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی کسی نے میرے کام میں مداخلت نہیں کی، میں نے ہمیشہ انصاف اورضمیر کے مطابق فیصلے کیے، عدالت جو فیصلہ کرنا چاہتی ہے کرتی ہے کسی کی مرضی سے نہیں کرتی، آج تک کسی کی ہمیں روکنے کی ہمت نہیں ہوئی، لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ کریں، انتشار نہ پیدا کریں اور اداروں سے بھروسہ نہ ختم کریں، بتائیں کس کی ڈکٹیشن پر کون سا فیصلہ ہوا ہی ۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، ماتحت عدالتوں کے سارے ججز محنت سے کام کرکے عوام کو انصاف فراہم کررہے ہیں، ساری جوڈیشری تندہی سے لوگوں کے فیصلے کررہی ہے، عدالتیں بغیر کسی دبا ئوکے کام کررہی ہیں، اپنے فیصلوں کیلئے کسی کی ڈکٹیشن لی نہ لوں گا، میری عدالت لوگوں کو انصاف دیتی ہے، عدالتیں انصاف وقانون کے مطابق کام کر رہی ہیں اور جو فیصلہ کرنا چاہتی ہیں وہ آزاد ہیں۔

چیف جسٹس گلزاراحمد نے علی احمد کرد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں عدالتوں کے فیصلے پڑھنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم بغیردبائو کے کام کرتے ہیں اورکرتے رہیں گے، پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہے انسانوں کی نہیں، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کرتے رہیں گے، کسی بھی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے ، ہم عہدہ چھوڑ دیں گے، پہلے بھی چھوڑا ہے۔

انہوںنے کہا کہ اگر کوئی غلطی ہے تو اسے درست کریں ،عدالتوں کے فیصلوں سے انقلاب آتا ہے ،دنیا بھر میں اسی طرح فیصلے کیے جاتے ہیں، کہیں غلط فیصلے آتے ہیں کہیں صحیح فیصلے آتے ہیں، ہر ایک کو اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اپنے اختلاف کو ثابت کریں، یہی ہماری عدلیہ کی خوبصورتی ہے۔انہوںنے کہا کہ ہماری عدالت ہر فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور وہ کرتی ہے، جس کا مقدمہ سامنے آتا ہے ہماری عدالت ہر ایک کا محاسبہ کرتی ہے، پاکستان میں انسان کی نہیں قانون کی حکمرانی ہے، ہم جس طرح سے کام کررہے ہیں کرتے رہیں گے، ملک میں آئین و قانون اور جمہوریت کی حمایت کریں گے اور اسی کا پرچار کریں گے، کسی غیر جمہوری سیٹ اپ کو قبول نہیں کریں گے، ہم چھوڑ دیں گے اور ہم نے پہلے بھی چھوڑا، آج کے لیے اتنی بات کافی ہے۔

چیف جسٹس نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ میرے بھائیو بہنوں اور میرے بچو یہ ملک قائم و دائم رہنے کے لیے ہے اور رہے گا ۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے خطاب میں کہا کہ آئین دو درجن سے زائد انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کرتا ہے جبکہ پاکستان میں آزادی صحافت، معلومات تک رسائی اور لڑکیوں کی تعلیم سمیت خواتین کے حقوق کو خطرات کا سامنا ہے۔

انہوں نے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلی خاتون جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا تذکرہ کیا۔انہوں نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر رہی ہیں اور ایک تقریب میں جہاں بھارتی مندوب بھی موجود تھے میں نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ آپ کے ملک میں بار ایسوسی ایشن کی صدر کوئی خاتون نہیں رہیں، اس لیے یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ 50 ممالک کی فہرست میں پاکستان واحد ملک ہے کہ جہاں پہلی وزیر اعظم خاتون مسلمان تھیں۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے سچ کو قبول نہیں کیا تو واپسی کا راستہ باقی نہیں رہتا۔انہوںنے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 18-2017 کی رپورٹ کے مطابق 180 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 130واں تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ناقابل معافی ہے، یہ میں نے اس لیے کہا کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کے مسودے پر دستخط کرنے والے 140 ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا اور لیاقت علی خان نے اس پر دستخط کیے تھے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جمہوریت کی بھیک نہیں مانگیں بلکہ یہ حق ہے کہ آپ جمہوریت کا مطالبہ کریں اور حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ سب سے افضل جہاد ظالم کے سامنے حق بات کرنا ہے۔

انہوں نے ایک فیصلے کا حوالہ دے کر کہا کہ اگر وزیر اعظم، قومی نشریاتی ادارے پر بطور پارٹی لیڈر بات کرتا ہے تو اپوزیشن کو بھی اس کا پورا حق ہے اور اگر اپوزیشن کو یہ موقع فراہم نہیں کیا جاتا تو امتیازی سلوک یا رویہ ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے مختلف ادوار میں جمہوریت کے خلاف آمرانہ اقدامات پر بھی بات کی۔انہوں نے مختلف حوالہ جات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان شاید پہلا ملک ہے جہاں عدلیہ نے جمہوریت کے کاز کے تعین کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ علی احمد کرد نے کانفرنس کا تھیم بدل دیا ہے،کئی عدالتی فیصلے ماضی کا حصہ ہیں جنہیں مٹایا نہیں جا سکتا،ہم اپنا سر ریت میں اپنا سر نہیں چھپا سکتے ،ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنا چاہیں۔انہوں نے کہا کہ میں علی احمد کرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے بتایا کہ لوگ اور بار ایسوسی ایشن ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ،علی کرد کو بتانا چاہتا ہوں جو جج آزاد ہو وہ دبائومیں آنے کا جواز نہیں لے سکتا ،ہم ایک حلف کے پابند ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ عدلیہ کو تاریخی فیصلوں پر فخر ہونا چاہیے اور غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے،2007 میں وکلا ء نے تاریخی تحریک کی قیادت کی، یہ تحریک ججز کی بحالی کی نہیں آزادی اور جمہوریت کے لیے تھی۔انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد 1954 میں تمیزالدین خان کیس عدلیہ کا پہلا امتحان تھا جس پر عدلیہ کو فخر ہونا چاہیے۔اگر جسٹس منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت نے تمیزالدین کیس کا فیصلہ واپس نہ لیا ہوتا تو اس ملک کا مستقبل مختلف ہوتا۔

ڈوسو کیس، محترمہ نصرت بھٹو کیس اور ظفر علی شاہ کیس عدلیہ کی تاریخ کا حصہ ہیں جس کو ہم مٹا نہیں سکتے، ان فیصلوں نے غیر جمہوری طاقتوں کو مضبوط کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو دبا ئومیں آکر پھانسی کی سزا سنانا ادارے کے لیے باعث شرمندگی ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملک کی تاریخ موڑنے میں عدلیہ کا کردار اہم تھا جس سے ہم آنکھیں نہیں پھیر سکتے، ملکی تاریخ کا نصف دور آمریت میں گزرا، غاصبانہ حکومتوں نے بنیادی حقوق اور آزادی چھین لی تھی۔

انہوں نے کہا کہ غلطیوں کا اعتراف بہتری کی جانب پہلا قدم ہے، میڈیا، سول سوسائٹی اور عدلیہ کو مل کر انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔میڈیا آزاد نہیں ہوگا تو عدلیہ بھی آزاد نہیں ہوگی لیکن میڈیا کو ذمہ دار ہونا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ یہاں اس کانفرنس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے نمائندے کی حیثیت سے یہ عزم کرتے ہیں کہ اپنی غلطیاں دوبارہ نہیں دوہرائیں گے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کریں۔