ارشد شریف کا بیہمانہ قتل، بیوہ جویریہ صدیق نے انصاف کے حصول کے لیے صدر مملکت کو خط لکھ دیا

ارشد شریف کو سچ بولنے کی وجہ سےہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا،ارشد شریف کی تصاویر لیک ہونے پر پورا خاندان دکھی ہے،جویریہ صدیق کا حکومتی تحقیقات پر عدم اطمینان کا اظہار،صدرِ مملکت سے تحقیققات اقوام متحدہ کی براہ راست نگرانی میں کروانے کا مطالبہ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 28 نومبر 2022 13:40

ارشد شریف کا بیہمانہ قتل، بیوہ جویریہ صدیق نے انصاف کے حصول کے لیے صدر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ، اخبار تازہ ترین، 28 نومبر 2022) کینیا میں قتل کیے جانے والے صحافی ارشد شریف کی اہلیہ نے انصاف کے حصول اور شوہر کے قتل کی شفاف تحقیقات کے لیے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو خط لکھ دیا۔خط میں جویریہ صدیق نے کہا کہ میرا نام جویریہ صدیق ہے اور میں یہ خط آپ کو شہید ارشد شریف کی بیوہ کے طور پر لکھ رہی ہوں جنہیں 23 اکتوبر 2022 کو کینیا میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

شہید ارشد شریف کو 2019 میں صدارتی پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ اور 2012 میں صحافت کا آغاہی ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ارشد شریف نے السٹر یونیورسٹی، شمالی آئرلینڈ سے میڈیا اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا،نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور اور ممتاز صحافی کہلائے۔ارشد شریف قومی سطح پر ایک اعلی تحقیقاتی صحافی کے طور پر جانا جاتا ہے جنہوں نے موجودہ رجیم کی کرپشن کو اجاگر کیا۔

(جاری ہے)

جویریہ صدیق نے مزید کہا کہ ریاست کے سربراہ اور پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے طور پر آپ سے اپیل ہے کہ شہید ارشد شریف کے بہیمانہ قتل میں انصاف دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔موجودہ حکومت میرے شوہر کو دھمکیاں دے رہی تھی اور ہراساں کر رہی تھی۔حکومت نے انہیں مختلف طریقوں سے ڈرایا، جعلی مقدمات درج کیے۔غداری کے الزامات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئیں جس کی وجہ سے وہ اگست 2022 میں پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

ارشد شریف کی آواز بند کرنے، انہیں نوکری سے نکالنے کے لیے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی پر بھی دباؤ ڈالا گیا،نجی ٹی وی چینل کی نشریات بھی بند کی گئیں۔ارشد شریف نے چینل سے مسعتفی ہونے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں پر کام کرنے والے 4 ہزار ملازمین روزی روٹی سے محروم نہ ہو جائیں۔بعدازاں ارشد شریف نے متحدہ عرب امارات میں پناہ لی لیکن وہاں سے بھی اس وقت نکلنے پر مجبور ہوئے جب متحدہ عرب امارات کے حکام نے انہیں وہاں سے جانے کی ہدایت کی۔

میرے شہید شوہر بہت محب وطن تھے۔ وہ پاکستان میں اپنی زندگی اور موت تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی دوسرے ملک کا ویزا حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ارشد شریف کے پاس اپنے اگلے سفر کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت نہیں تھا۔ اس طرح ان کے سفر کے اختیارات ان چند ممالک تک محدود تھے جو آمد پر ویزا کی اجازت دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ارشد شریف متحدہ عرب امارات سے کینیا گئے جہاں بالآخر اسے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

ارشد شریف بےباک اور نڈر صحافی تھے جن کا جرم صرف بولنا اور طاقتور کے خلاف سچ لکھنا تھا اور یہی وجہ تھی کہ انہیں ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم بطور شہید ارشد شریف کا خاندان مکمل طور پر تباہ و برباد ہو کر رہ گئے تھے۔انصاف کے لیے ہم دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔کچھ لوگوں نے ارشد شریف کی موت کو اپنے فائدے اور ایجنڈے کے لیے استعمال کیا۔

ہمارے ساتھ ریاست نے کوئی تعاون نہیں کیا۔میرے شہید شوہر پر ہونے والے حملے کی تصویریں غیر قانونی طور پر لیک کی گئیں جو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں،میرے شہید شوہر کی عزت اس کے مرنے کے بعد بھی پامال کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ان کے اہلخانہ شدید دکھی ہیں۔حکام بتائیں کہ آخر ہماری اجازت کے بغیر یہ تصاویر کیسے منظر عام پر آئیں۔

جس طرح حکومت کی جانب سے شہید ارشد کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، اس سے شدید مایوس ہیں۔ایسا لگتا ہے پاکستان اور کینیا حکام کی جانب سے اس عمل کا مقصد وحشیانہ اور غیر انسانی قتل کی پردہ پوشی کرنا ہے۔جناب صدر آپ سے درخواست ہے کہ اس کیس کی تحقیقات کی شفافیت کو یقینی بنائیں۔ شہید کے قتل کی حقیقت جاننا ہمارا بنیادی حق ہے۔ابتدائی تحقیقات میں بہت سے تضادات، بے ضابطگیاں اور تضادات ہیں جنہوں نے ہمیں حکومت پاکستان کی جانب سے تحقیقات کے لیے بنائے گئے کمیشن کو مسترد کرنے پر مجبور کیا۔

یہ وہی حکومت ہے جس نے ارشد شریف کے خلاف 16 سے زائد بے بنیاد ایف آئی آر درج کیں۔جویریہ صدیق نے خط میں مزید کہا کہ آپ سے درخواست ہے کہ شہید ارشد کے بہیمانہ قتل کی تحقیقات کو یقینی بنانے میں ہماری مدد کریں۔ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ کی براہ راست نگرانی میں ماہرین کی اعلیٰ سطحی بین الاقوامی ٹیم کرے۔ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کی انکوائری کے لیے ہم شفاف انعقاد کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کریں گے۔