اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جنوری2023ء) احمد فراز کی شاعری میں ترقی پسندوں کی وضاحت اور سراحت بھی تھی اور جدت پسندوں کی رمزیت بھی تھی۔ ان خیالات کا اظہار حلیم قریشی نے احمد فراز کی 92 ویں سالگرہ کے موقع پر اکادمی ادبیا ت
پاکستان اور ادبی تنظیم ''زاویہ'' کے اشتراک سے منعقدہ "عہد ساز شاعر احمد فراز کی یاد میں خصوصی تقریب اور مشاعرہ کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
چیئرمین اکادمی ادبیات
پاکستان ڈاکٹر یوسف خشک اور احمد فراز کے فرزند سعدی فراز مہمانان خصوصی تھے۔ اختر عثمان نے موضوع کے حوالے سے کلیدی گفتگو کی۔ نظامت محبوب ظفر نے کی۔ اس موقع پر احمد فراز کی سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا۔ حلیم قریشی نے کہا کہ احمد فراز کی پہلی کتاب ''تنہا تنہا'' 1955 میں آئی اور آخری کتاب 2007 میں ''اے عشق جنوں پیشہ'' منظر عام پر آئی۔
(جاری ہے)
یہ تقریباً چھ دہائیاں بنتی ہیں۔ اس دور کی پہلی تین دہائیوں پچاس، ساٹھ اور ستر کا جو دور تھا یہ دور نظریات کے تصادم کا دور تھا۔ ترقی پسندی اور جدت پسندی، میں سمجھتا ہوں کہ احمد فراز ہماری اردو شاعری کی واحد شخصیت ہیں جو ان دونوں نظریات میں گہرائی سے قابل قبول تھے۔ اس کی وجہ ان کی شاعری تھی، اس میں ترقی پسندوں کی وضاحت اور سراحت بھی تھی اور جدت پسندوں کی رمزیت بھی تھی۔
اس تصادم اور انضمام سے جو فضا بنی وہ ساری احمد فراز کی شاعری میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو ہر نظریے کے لوگوں نے پسند کیا اور انہیں عالمی شہرت نصیب ہوئی۔ احمد فراز اردو شاعری کی واحد شخصیت ہیں کہ کسی جگہ اردو شاعری کا ذکر ہو تواس میں احمد فراز کا شعر نہ پڑھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ چیئرمین اکادمی ادبیات
ڈاکٹر یوسف خشک نے ابتدائیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ احمد فراز کی شخصیت کا رشتہ خاص طور پر ہمارا تین حوالوں سے بنتا ہے۔
ایک سماجی حوالے سے کہ انہوں نے سماج کو اپنی شاعری کے توسط سے جو کنٹریبیوٹ کیا وہ ایک مثالی رشتہ ہے۔ احمد فراز کی شاعری کو پڑھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے زندگی میں کہیں بھی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ زندگی یا سوسائٹی میں تبدیلیاں لانے والے لوگ کبھی بھی مصلحتوں کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ مصلحت کرنے والے لوگ وہ اپنے وژن پر زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہتے اور نہ ہی سوسائٹی سے فالو اپ کروا سکتے ہیں۔
احمد فراز کی شاعری کے پیغام کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ سوسائٹی کو جس انداز سے انہوں نے کنٹریبیوٹ کیا اور آخری عمر تک قلم
کار اور اہل قلم کے لیے انہوں نے جو اپنی جدوجہد جاری رکھی وہ ادبی تاریخ کے حوالے سے ایک خوبصورت مثال ہے۔ احمد فراز سے دوسرا رشتہ ہمارا ادبی حوالے سے بنتا ہے کیونکہ ادب دوست ہونے کے ناطے وہ کئی نوجوان شعراء اور ان کے ہم عصروں کے لیے آج بھی مشعل راہ ہیں۔
ان کی شاعری میں جو پیغام ہے یا ان کا اسلوب ہے اس کو فالو کرنا یا اس کی تقلید کرنے کے لیے آج بھی لوگ اس طرح کا انداز اپنا نے کے لیے ہمیں بے
چین نظر آتے ہیں اور یقیناً وہ بے چینی صرف اسلوب کی نہیں بلکہ اس میں موجود فکر کی بھی ہے جو خدا کی دین ہے اور یہ صلاحیت احمد فراز میں موجود تھی۔ اکادمی کا چیئرمین ہونے کے ناطے ہمارے لیے انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج جس جگہ ہم بیٹھے ہیں اس میں احمد فراز کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ وہ اکادمی ادبیات
پاکستان کے پہلے پروجیکٹ ڈائریکٹر تھے جنہوں نے پہلی فائلیں تیار کیں، اس کے بعد اکادمی کے مختلف ادوار میں بہت ہی نامور ادبیوں نے حصہ ڈالا۔
اکادمی کے سربراہان کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے لیکن اکادمی کی پہلی اینٹ رکھنے کا عمل احمد فراز کے حصہ میں آتا ہے۔ اس حوالے سے اکادمی ادبیات
پاکستان اور ادیبوں کے حوالے سے یہ مضبوط سلسلہ چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں میں بھی بڑھایا جا رہا ہے تو اس میں جب بھی اکادمی کی تاریخ کے حوالے سے ذکر آئے گا تو احمد فراز کی شخصیت کو بھی اس حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے ادبی و ثقافتی ادبی تنظیم (زاویہ) اور تقریب میں موجود شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ سعدی فراز نے احمد فراز ہی کے مخصوص انداز میں ان کے اشعار سنائے۔ اختر عثمان نے کہا کہ احمد فراز سماجی اور رومانوی شاعری کے دیوتا تھے، جو محبت احمد فراز نے سمیٹی شاید ہی کسی شاعر کے حصے میں آئی۔ احمد فرا ز نے سماجی اور سرکاری سطح پر مختلف اداروں کی سرپرستی کی اور ان اداروں کا نام بلند ہوا، جو انعامات یا ایوارڈز احمد فراز کو ملتے ان ایوارڈز کی ویلیو احمد فراز کی وجہ سے بنی۔
انہوں نے کہا کہ احمد فراز کے بغیر اردو غزل کا ذکر ہو ہی نہیں سکتا۔ احمد فراز نے اردو غزل کے ساتھ ساتھ آزاد نظم پر بھی حکمرانی کی۔ حسن عباس رضا نے احمد فراز کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کے بارے میں گفتگو کی۔ بعدازاں محفل مشاعرہ منعقد ہوئی جس میں حلیم قریشی، حسن عباس رضا، رحمان حفیظ، راحت سرحدی، محبوب ظفر، صغیر انور، تہمینہ راؤ، نرگس جہانزیب، ذاکر رحمان اور دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
اس تقریب سے قبل
ڈاکٹر یوسف خشک کی سربراہی میں اکادمی ادبیات
پاکستان کے افسران، سٹاف نے ایچ ایٹ قبرستان
اسلام آباد میں واقع احمد فراز کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر صدر ادبی تنظیم زاویہ محبوب ظفر ، سعدی فراز، اختر عثمان، اختر رضا سلیمی، محمد عاصم بٹ، نصیرالدین آذر سعید، ملک مہر علی و دیگر نے شرکت کی۔