کراچی کے جن علاقوں میں زلزلے آئے ہیں وہاں کئی بورنگ کرکے زیر زمین پانی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، ماہرین

شہر کے مشرقی حصے میں یکم جون سے اب تک 57 زلزلے آچکے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، چیف میٹرولوجسٹ

جمعرات 3 جولائی 2025 21:00

کراچی کے جن علاقوں میں زلزلے آئے ہیں وہاں کئی بورنگ کرکے زیر زمین پانی ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 جولائی2025ء)شہر کے مشرقی حصے لانڈھی، ملیر، کورنگی، قائد آباد اور دیگر علاقوں میں یکم جون سے اب تک تواتر کے ساتھ 57 زلزلے آچکے ہیں جو ہلکی نوعیت کے ہیں تاہم اس میں تسلسل کی وجہ سے لوگوں میں بہت خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ کراچی کے جن علاقوں میں یہ زلزلے آئے ہیں وہاں کئی برسوں سے بورنگ کرکے زیر زمین پانی کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، کئی چھوٹی بڑی عمارتیں بھی تعمیر ہوچکی ہیں، ان علاقوں میں زمین 15سیںٹی میٹر دھنس چکی ہے، اگرچہ ابھی سائنٹیفک ثبوت نہیں کہ بورنگ اور بلند عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے حالیہ زلزلے آئے ہیں اور زمین دھنس رہی ہیلیکن یہ بات قرین قیاس ہوسکتی ہے اور اس کے لیے جامع اسٹڈی کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق کراچی میں لانڈھی، کورنگی، ملیر اور دیگر علاقوں کی زیر زمین صورت حال کمزور پڑتی جا رہی بالخصوص گھروں کی بنیادیں متاثر ہو رہی ہیں، زلزلوں کے مواقع پر بھی یہاں نقصانات کا اندیشہ ہے اور عام حالات میں بھی کوئی ناگہانی واقعہ پیش آسکتا ہے۔

(جاری ہے)

محکمہ موسمیات اور دیگر ماہرین نے کہا کہ دستیاب تاریخی ڈیٹا میں کراچی میں کبھی بھی تواتر کے ساتھ اتنے زلزلے ریکارڈ نہیں کیے گئے۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے ڈاکٹر نعمان احمد نے بتایا کہ زلزلے کا آنا ایک بڑے اسکیل کا عمل ہے، اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بورنگ یا زیر زمین پانی کھینچنے کی وجہ سے زلزلے آرہے ہیں، اس کی ریسرچ ضرور ہونی چاہیے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ زیر زمین پانی کا حد سے زیادہ نکالنا ایک غیر فطری عمل ہے، اس لیے جن علاقوں میں یہ بورنگ کی جاچکی ہے وہاں لازمی زیر زمین قدرتی اسٹرکچر کمزور ہوچکا ہے۔

انہوں نے کہاکہ زمین کے نیچے کئی تہیں ہوتی ہیں جس میں چٹان، پتھر، مٹی پانی وغیرہ ہوتے ہیں، جب اس کا ایک حصہ یعنی پانی نکال لیا جائے تو لازما وہاں خلا پیدا ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں ان علاقوں کی زیر زمین قدرتی پوزیشن کمزور پڑجائے گی۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی گھروں کی بنیادیں بھی کمزور پڑ سکتی ہیں، ان وجوہات کے باعث ان علاقوں میں زلزلوں کی صورت میں اور عام حالات میں بھی یہاں قائم گھروں کو نقصانات کا اندیشہ ہے۔

ڈاکٹر نعمان نے کہا کہ اصولی طور پر متعلقہ ادارہ یہاں ریگولر نظام کے تحت پانی پائپ کے ذریعے پہنچائے تاکہ لوگوں کو بورنگ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے، یہ ایک مہنگا عمل ہے لوگ خوشی سے نہیں بلکہ مجبورا کررہے ہیں۔انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے ان علاقوں کا تفصیلی سروے کرے اور بورنگ کے نتیجے میں جو زیر زمین نقصان ہوچکا ہے اس کی لوگوں کو نشان دہی کرے اور تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

شعبہ ارضیات جامعہ کراچی کے ڈاکٹر عدنان خان نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کراچی کے چند مخصوص علاقوں میں آنے والے زلزلے اور وہاں زمین کا دھنسنا قدرتی طور پر ہے تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ ماحولیات میں انسانی دخل یا زیر زمین پانی کے نکالنے کی وجہ سے یہ زلزلے آئے ہیں یا زمین دھنس رہی ہے اس کے لیے ریسرچ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیشنل ریسرچ ادارے اور لوکل اداروں کی رپورٹ کے مطابق لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈیفنس اور نارتھ کراچی کی زمین 15سینٹی میٹر دھنس چکی ہے اور سالانہ ایک اعشاریہ پانچ سینٹی میٹر دھنس رہی ہے، یہ ڈیٹا 2017 تا 2021 کے جائزے پر محیط ہے۔

فی الوقت سائنسی ریسرچ کے مطابق یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرزمین تہہ کی حرکت کی وجہ سے زمین دھنس رہی ہے لیکن یہ انڈر آبزرویشن ہے کہ لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں زیر زمین پانی کافی زیادہ نکالا جا رہا ہے اور وہیں زلزلے آرہے ہیں اور زمین بھی دھنس رہی ہے، اس کے لیے ایک بھرپور ریسرچ کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ شہر کے بیشتر علاقوں بالخصوص لانڈھی،کورنگی اور ملیر میں ریگولر پانی کے نظام میں بحران کی وجہ سے رہائشی، انڈسٹریز اور آر او پلانٹس کے ذریعے زیر زمین پانی نکالے جانے کا عمل بہت بڑھ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ کراچی کو ریگولر واٹر سسٹم سے پانی فراہم کیا جائے اور بارشوں کے پانی کے ذریعے زیر زمین متاثرہ پانی کے ذخیرے کو ری چارج کیا جائے۔ ڈاکٹر عدنان نے کہا کہ کراچی چاروں اطراف سے بڑے فالٹس کی زد میں ہے لیکن حالیہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں جو شہر کے بیرونی اطراف کی بڑی فالٹ لائنوں کی وجہ سے نہیں آئے ہیں بلکہ لوکل کراچی کی اپنی فالٹ لائنوں کی وجہ سے آئے ہیں، اسی لیے یہ ایک خاص پاکٹ میں ہلکی نوعیت کے آئے ہیں جبکہ شہر کا بقیہ حصہ اس سے محفوظ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کی اپنی فالٹ لائنیں پرخطر نہیں تاہم کراچی کو چاروں اطراف بالخصوص انڈیا اور بلوچستان میں موجود ٹیکٹانل پلٹیس سے خطرہ ہے، وہاں اگر زیادہ شدت کے زلزلے آتے ہیں تو وہ پورے کراچی میں تباہی لا سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کراچی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ سنگل پلیٹ کا حصہ ہے، اس کے 110کلومیٹر کے بعد مغرب کی طرف ایک پوائنٹ ملے گا جہاں تین پلیٹس انڈین، یوریشین اور عریبین پلیٹس موجود ہیں، عریبین پلیٹ وہاں کے جنوب سے دونوں پلیٹ کے نیچے سے جا رہی اور Subduct کر رہی ہے، وہاں اگر زلزلے آتے ہیں تو اس کے اثرات بھی کراچی پر آسکتے ہیں۔

کراچی میں زمین کے دھنسنے کے عمل کے بارے میں این ای ڈی یونیورسٹی کے شعبہ ارتھ کوئیک انجنئیرنگ ڈپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر مسعود رفیع کا کہنا ہے کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہوسکتی ہیں، چھوٹی بڑی عمارات کی تعمیر اور زیر زمین پانی کا استعمال، بیشتر علاقوں میں پانی کے بحران کی وجہ سے لوگوں نے متبادل طریقے اختیار کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شہر میں کئی رہائشی علاقوں میں بورنگ کرکے زیر زمین پانی نکالا جارہا ہے، اس کے علاوہ پینیکے پانی کے لیے جگہ جگہ آر او پلانٹس کی دکانیں قائم ہیں، بے تحاشا پانی نکلنے سے زیر زمین خلا پیدا ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بیشتر علاقوں میں چھوٹی بڑی عمارتیں تعمیر ہوچکی ہیں جن کے وزن سے زیر زمین دبا بڑھ رہا ہے، یہ دو بڑی وجوہات ہیں جو زمین کے دھنسنے کی وجہ بن رہی ہیں، کسی علاقے میں زیادہ زمین دھنس رہی ہے اور کسی جگہ کم، یہ عمل شہر کے کئی علاقوں میں ہو رہا ہے، اس کے لیے زیر زمین پانی کے نکالنے کا عمل روکا جانا بہت ضروری ہے۔چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے بتایا کہ کراچی میں یکم جون سے اب تک 57 زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاچکے ہیں جو ریکٹر اسکیل پر 1.5 سے 3.8 کی شدت کے ہیں، یہ زلزلے ہلکی نوعیت کے ہیں اور اس سے کسی قسم کا جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا ہے۔