عورت مارچ اور جماعت اسلامی کا اجتماع

DW ڈی ڈبلیو بدھ 8 مارچ 2023 20:40

عورت مارچ اور جماعت اسلامی کا اجتماع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مارچ 2023ء) عورت کے نام پر نکالے جانے والے ان مارچوں کے مقاصد مختلف تھے۔ جماعت اسلامی نے اپنا اجتماع ڈی چوک کے قریب منعقد کیا جب کہ سول سوسائٹی کے کارکنان نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے جمع ہوئے، جس کے بعد چاروں طرف سے پولیس نے کنٹینرز لگا کے اس علاقے کو بند کر دیا۔ تاہم شرکا مختلف تنگ راستوں سے ہوتے ہوئے پریس کلب کے سامنے جمع ہوگئے۔

عورت مارچ پر تنقید کیوں کی جاتی ہے؟

عورت مارچ: برائے زن زندگی آزادی

اس موقع پر اسلام آباد میں سخت سکیورٹی کے انتظامات تھے اور پولیس نے پریس کلب، پارلیمنٹ ہاؤس اور ڈی چوک کے راستوں کو کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر جگہ جگہ سے بند کیا ہوا تھا۔

جب ڈی ڈبلیو نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کے دفتر فون کر کے عورت مارچ کے حوالے سے پوچھا، تو ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ''عورت مارچ کے لیے این او سی نہ ہی جماعت اسلامی کو جاری کیا گیا ہے اور نہ سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کو۔

(جاری ہے)

اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے اور اس طرح کے اجتماعات پر پابندی ہے۔‘‘

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغرب میں عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد 1911 میں شروع کی، لیکن اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کو تمام حقوق دے دیے تھے۔

جماعت اسلامی کے اجتماع میں سینکڑوں برقع پوش خواتین موجود تھیں، جنہوں نے جماعت اسلامی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے تھے۔

دوسری جانب عورت مارچ کے شرکاء نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جس میں پدرسری نظام کے خلاف نعرے اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے مطالبات درج تھے۔ عورت مارچ میں خواجہ سراؤں اور ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی، جس میں ایک اچھی خاص تعداد ایسی ہزارہ خواتین کی بھی تھی، جنہوں نے افغانستان سے آکر اسلام آباد میں پناہ لی ہوئی ہے۔

عورت مارچ سے خطاب کرتے ہوئے خواتین کارکنان نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا کیا اور شہباز شریف کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہعورت مارچکی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ حقوق نسواں کی کارکن فرزانہ باری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے شرکاء سے کہا کہ وہ ڈی چوک کی طرف مارچ کریں۔

عورت مارچ پر تنقید مسترد

پاکستان میں مذہبی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ عورت مارچ کے منتظمین بنیادی طور پر مغربی ثقافت کو فروغدے رہے ہیں اور وہ معاشرے کو بے راہ روی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

لیکن حقوق نسواں کے کارکنان ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس دن کو اس لیے منایا جاتا ہے تاکہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کیا جائے۔

انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی شریک ڈائریکٹر طاہرہ حبیب نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' یہ بالکل غلط پروپیگنڈہ ہے کہ یہ مغرب زدہ خواتین ہیں یا ان کا کوئی مغربی ایجنڈا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ہے؟ کیا انہیں تعلیم، صحت اور روزگار کے حقیقی معنوں میں حقوق حاصل ہیں؟ کیا ان کو جبری طور پر شادی کے بندھن میں نہیں باندھا جاتا ہے؟ کیا ان کے خلاف جسمانی اور ذہنی تشدد کا ارتکاب نہیں کیا جاتا؟ کوئی ایک ایسا حق بتائیں جس کی خلاف ورزی نہ ہورہی ہو؟‘‘

طاہرہ حبیب کے مطابق اس دن کی بدولت آج خواتین میں بہت زیادہ شعور آ گیا ہے۔

''ابتدائی طور پر عورت مارچ کا انعقاد صرف کچھ شہروں میں ہوتا تھا لیکن اب عورت مارچ گھوٹکی، حیدر آباد اور کراچی سمیت ملک کے کئی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ شعور اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والوں کو یہ پتہ ہے کہ عورتوں کے کیا حقوق ہیں۔‘‘

طاہرہ حبیب نے دعویٰ ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے حکومت نے قوانین بنائے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

'' عملدرآمد کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اس کے لیے متعلقہ وسائل ہوتے ہیں، وہ فوری طور پر پر دستیاب نہیں ہوتے۔‘‘

عورت مارچ اور مذہبی تننظیمیں

خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی تنظیموں نے کچھ برسوں سے اس مارچ کی مخالفت میں اپنے مارچ نکالنے شروع کر دیے ہیں، جس میں جماعت اسلامی سر فہرست ہے۔

مذہبی تنظیموں اور خواتین تنظیموں کی طرف سے اس طرح کے مارچ نکالنے کی وجہ سے ماضی میں بعض اوقات تصادم کی بھی صورتحال بنی۔

گزشتہ برسوں میں عورت مارچ کے منتظمین کو دھمکیاں بھی ملیں جب کہ ایک موقع پر عورت مارچ کے منتظمین کے شرکاء کی طرف پتھر بھی پھینکے گئے۔

تاہم جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم عورت کا عالمی دن اپنی اقدار، اپنی روایات اور اپنے سماجی ڈھانچے کے مطابق مناتے ہیں۔

ہم کبھی ریلی نکالتے ہیں اور کبھی کانفرنس کرتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر سمعیہ راحیل قاضی کے مطابق جماعت اسلامی نہ کسی کے ردعمل میں کوئی کام کرتی ہے اور نہ کسی کی دیکھا دیکھی۔ '' یہ لوگ کچھ برسوں سے خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں۔ میرے والد نے انیس و اٹھانوے میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا۔ ہمارے کئی ونگ برسوں سے خواتین کے لیے کام کر رہے ہیں۔

تو ہمیں ان لوگوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔‘‘

سمعیہ راحیل نےسول سوسائٹی تنظیموں کا نام لیے بغیر کہا کہ کہ کچھ لوگ تین چار سال سے یہ دن منارہے ہیں۔ ’’صرف ایک دن وہ اپنی اقدار یا روایات سے باغی ہو کر نکل آتے ہیں۔ نہ ہم ان کے متعلق کوئی بات کرتے ہیں، نہ ان کے متعلق کوئی رائے دیتے ہیں۔ ہم اپنا کام کرتے ہیں اور ان کو ان کے معاشرے پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ جانیں اور ان کا معاشرہ جانیں۔ کیونکہ جو بھی معاشرتی اعتبار سے بغاوت کرتا ہے معاشرہ خود اسے ٹھکرا دیتا ہے۔‘‘