تمام ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پینشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے،مقررین

اشیاء خودونوش ، بجلی، گیس کی قیمتیوں میں کمی کی جائے، مفت تعلیم و صحت فراہم کی جائے، " مزدور ریلی سے خطاب

پیر 1 مئی 2023 23:48

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2023ء) نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیراہتمام یکم مئی کے مزدور شہداء کی یاد میں " مزدور ریلی " نکالی گئی جس کی قیادت کامریڈ زہرا خان اور کامریڈ گل رحمان کر رہے تھے۔ ریلی کا آغاز ریگل چوک صدر سے ہوا اور کراچی پریس کلب پر اختتام پذیر ہوئی۔ ریلی میں بڑی تعداد میں محنت کشوں ، سیاسی ، طلبہ ، نوجوانوں، سماجی و انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔

ریلی کے شرکاء نے شکاگو کے مزدور شہداء ، انقلابی رہنماؤں کی تصاویر اور سرخ پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ ریلی کے دوران مزدور اپنے حقوق اور مطالبات کے لئے نعرے لگا رہے تھے۔ مزدور ریلی کے شرکاء میں ناصر منصور، رفیق بلوچ ، ریاض عباسی، گل رحمان (نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن)، اسد اقبال بٹ، ہوم رائٹس کمیشن آف پاکستان، حبیب الدین حنیدی پیپلز لیبر بیورو ، کرامت علی نیشنل لیبر کونسل ، ایوب قریشی ، نیشنل پارٹی ،جنت، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپین ، سعید بلوچ ، پاکستان فشر فورک فورم ، ڈاکٹر اصغر دہشتی ، واحد بلوچ، غلام محبوب ، پی سی ہوٹل یونین، قمر الحسن ، آئی یو ایف ، عینی یعقوب، پروین بانو (ہوم بیسڈوومن ورکرز فیڈریشن)، سائرہ فیروز، زہداہ پروین (یونائیٹڈ ایچ بی گارمنٹس ورکرزیونین)، عاقب حسین، بلاول ( نوجوان تنظیم الٹرنیٹ)، بخت زمین ( سائیٹ لیبر فورم )، محمد صدیق اور زرینہ خاتون (سانحہ بلدیہ ایسوسی ایشن )، اقبال ، ہمت پھلپوتو (ٹیکسٹائل جنرل ورکرز یونین)، بشری آرئیں ،آل لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام یونین، حسین بادشاہ، ڈاک لیبر یونین، ذوالفقار شاہ، نالج فورم ، مرزا مقصود، پاکستان اسٹیل رئیٹائر ایمپلائز ایسوسی ایشن ، ساجد ظہیر ، انجمن ترقی پسند مصنفین و دیگر شامل تھے۔

(جاری ہے)

ریلی سے خطاب کرتے ہوتے محنت کشوں کے رہنماو ٴں نے کہا کہ پاکستان کا مزدور طبقہ ، حکمران طبقات کی معاشی اور سیاسی پالیسیوں کو یکسر مسترد کرتا ہے اور موجودہ سیاسی و معاشی بحران میں حکم رانوں کی بے حسی روا اور محنت کش عوام سے روا رکھنے جانے والے غیر انسانی سلوک کی شدید مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان جس گہرے سیاسی، معاشی اور معاشرتی بحران کا شکار ہے وہ حکم رانوں کی سات دہائیوں سے مسلط کردہ ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

آج بھی کروڑوں انسان روٹی اور روزگار کے متلاشی ہیں جب کہ حکومت ، اپوزیشن ، عدالتیں اور مقتدرہ قوتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے باہم دست و گریباں ہیں جس سے ان کی عوام دشمنی عیاں ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پانچ فی حکم ران گروہ کو چھوڑ کر ملک کے تیئس کروڑ انسان مہنگائی، بے روزگاری ، سیاسی بے یقینی اور لاقانونیت کی وجہ سے مسلسل خوف ، کرب اور اذیت کے ماحول میں زندگی گزرنے پر مجبور ہیں۔

پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ذرائع پیداوار اور ریاست پر قابض اشرافیہ نے اپنے لیے ملک اور بیرونی ملک دولت کے انبار جمع کر رکھے ہیں جبکہ ملک کا عام شہری خصوصا محنت کش طبقہ اکیس ویں صدی میں بھی صاف پانی، تعلیم ، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی، گیس اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ ملک کی نصف آبادی خط افلاس سے نیچے جانوروں سی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

فیکٹریوں ، کارخانے اور کارگاہیں جدید دور کے بندی خانے ہیں جہاں آٹھ کروڑ سے زائد محنت کش دائمی غلام بنا دئیے گئے ہیں۔ مزدور ریلی میں مطالبہ کیا گیا کہ کم از کم اجرت پچاس ہزار مقرر کی جائے۔ تمام ورکرز بشمول گھر مزدورں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے۔ بین الاقوامی فیشن برانڈز لیبر قوانین پر عمل درآمد یقینی بنائیں ، وہ برانڈ جنہوں نے اب تک پاکستان آیکارڈ پر دستخط نہیں کئے وہ جلد از جلد پر معاہدے کا حصہ بنے تاکہ کارگاہیں محفوظ ہو سکے۔

کام کی جگہوں کو ہراسگی سے پاک کیا جائے۔ فیکٹری کارخانون اور کارگاہوں میں لیبر قوانین پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔لیڈی ہیلتھ ورکرز کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔ یونین سازی اور بنک کے ذریعے اجرتوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے۔ٹھیکہ داری نظام کو جرم قرار دیا جائے۔ ہر شہری کو تعلیم، صحت اور رہائش فراہم کی جائے، ٹرانس پورٹ کا مربوط نظام وضع کیا جائے۔

سام راجی تسلط سے آزادی اور حقیقی جمہوریت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ تمام غیر ملکی قرضہ جات کی ادائیگی کو موخر کرنے کا بین الاقوامی طریقہ اختیار کیا جائے۔ نج کاری کے نام پر لوٹ سیل کا سلسلہ بند کیا جائے۔ اسٹیل ملز کے ملازمین بشمول ریٹائرڈ ملازمین کے مطالبات تسلیم کئے جائیں۔ واپڈا اور دیگر اداروں کی نج کاری اور انہیں تقسیم کرنے کا منصوبہ ترک کیا جائے۔

غیر پیداواری بشمول دفاعی اخراجات میں پچاس فی صد کمی جائے۔ پڑوسی ممالک خصوصا بھارت، ایران اور چین سے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔جمہوریت کی مضبوطی اور ملکی معیشت کا پہیہ رواں کرنے کے لیے زرعی اصلاحات کا آغاز کیا جائے، غیر حاضر زمین داری ختم کرتے ہوئے قابل کاشت زرعی اراضی بے زمین ہاری، کسان خان دانوں میں مفت تقسیم کی جائے۔

ملکی ایکسپورٹ بڑھانے والی صنعتوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی میں ریاستی مدد اور رعایت فراہم کی جائے۔ انتخابی اصلاحات متعارف کی جائیں تاکہ محنت کشوں، عورتوں اور مظلوم طبقات کی ابادی کے تناسب سے نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔ بااختیار جمہوری بلدیاتی نظام تشکیل دیا جائے۔ عورتوں، اقلیتوں، ٹرانس جینڈر کو برابر کا شہری عملاً تسلیم کیا جائے۔ تمام امتیازی قوانین ختم کیے جائیں۔ ماوراء قانون و آئین شہریوں کی گم شدگیوں کا سلسلہ روکا جائے۔ تمام ماحول دشمن منصوبوں پر عمل درآمد روکا جائے۔ ترقی کے نام عوام کو بے گھر کرنے کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائی