صدر کی اگر رٹ باقی نہیں رہی تو استعفیٰ ہی ان کے لیے باعزت راستہ ہوگا: حافظ حسین احمد

عارف علوی کا تردیدی بیان ٹھوس نہیں بلکہ ٹھس لگتا ہے، دستخط اگر صدر کے نہیں تو پھر کس کے ہیں دستخط کے معاملے کی فرانزک کرائی جائے ، عارف علوی کہیں فاروق لغاری تو نہیں بن رہے، نگران اقتدار پر قابض رہنے اور انتخابات کو ملتوی کرنے کی تدبیریں کررہے ہیں ،سینئررہنما جے یوآئی

اتوار 20 اگست 2023 19:05

صدر کی اگر رٹ باقی نہیں رہی تو استعفیٰ ہی ان کے لیے باعزت راستہ ہوگا: ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2023ء) جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سینئر رہنما سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر صدر کے دستخط اور ڈاکٹر عارف علوی کے تردیدی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ عارف علوی کی اگر رٹ باقی نہیں تو استعفیٰ ہی ان کے لیے باعزت راستہ رہ جاتا ہے، صدر عارف علوی کا تردیدی بیان ٹھوس نہیں بلکہ ٹھس لگتا ہے اگر دستخط صدر کے نہیں تو کس کے ہیں اس کی تحقیقات ہونا چاہئے اور اس تمام معاملے کی فرانزک رپورٹ کے سامنے لائی جائے، ڈاکٹر عارف علوی کہیں فاروق لغاری تو نہیں بن رہے۔

اتوار کے اپنی رہائشگاہ جامعہ مطلع العلوم میں مختلف وفود اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ صدر عارف علوی سب سے بڑے آئینی عہدے پر ہیں اور تینوں مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف ہیں اگر ان کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ نگران حکومت کے قیام سے ایک ہفتہ قبل ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ لمبی نگرانی کا پروگرام طے پارہا ہے اب صورتحال اسی طرف جارہی ہے، نگران انتخابات کے انعقاد کے بجائے دوسرے معاملات کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور نگرانوں کے رویے سے لگتا ہے کہ وہ لمبی نگرانی کے لیے آئے ہوئے ہیں، نگران اقتدار پر قابض رہنے اور انتخابات کو ملتوی کرنے کی تدبیریں کررہے ہیں اس لیے نئی حلقہ بندیوں کا بہانا بنا کر انتخابات میں تاخیر کی کوشش کی جارہی ہے، انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے پیپلز پارٹی تحریک چلا کر کفارہ ادا کرنا چاہتی ہے اب دیکھیں کہ دیگر جماعتیں کیا کرتی ہیں، حافظ حسین احمد نے کہا کہ نگران حکومتوں کا کام انتخابات کرانا ہوتا ہے لیکن یہاں عجیب معاملہ ہے کہ نگران انتخابات کے انعقاد کو چھوڑ کر باقی تمام معاملات پر توجہ دے رہے ہیں نگران بس نگران ہی رہیں اور کچھ بننے کی کوشش نہ کریں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 26 جولائی 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں جو ترمیم کی گئی ہیں اب وہی ترمیم سیاستدانوں کے گلے پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوچکے ہیں انتخابات میں جتنی تاخیر ہوگی اختلافات میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ ایک بار پھر 2018ء جیسا ماحول بنایا جارہا ہے اور نئی نویلی پارٹیوں کو آگے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔