Live Updates

گھریلو خاتون کی نجی زندگی کو سر عام بحث کا موضوع بنانا مناسب ہے

DW ڈی ڈبلیو پیر 12 فروری 2024 17:40

گھریلو خاتون کی نجی زندگی کو سر عام بحث کا موضوع بنانا مناسب ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 فروری 2024ء) سیاست میں مخالف پارٹی پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ کسی ایک ملک تک محدود ہے۔ پاکستان میں مقبولیت حاصل کرنے اور مخالف پارٹی کو نیچا دکھانے کے لیے ذاتیات پر اترنا، غیر اخلاقی بیانات اور کردارکشی کرنے جیسے حربے عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ مرحومہ بے نظیر بھٹو کے لیے پیلی ٹیسکی جیسے غیر اخلاقی الفاظ استعمال کرنے، ان کی معیوب تصاویر عوام میں بانٹنے اور طرح طرح کے اسیکنڈلز کا نشانہ بنانے کے ہتھکنڈے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔

مریم نواز کی شادی کب، کس سے اور کیسے ہوئی ان کے نانی بننے کے بعد بھی ایک پسندیدہ موضوع سمجھا جاتا ہے۔

عمران خان کی پہلی اہلیہ جمائما گولڈ سمتھ جنہیں ان کے فین آج بھی بھابھی اور مخالفین ایک ایجنٹ کہتے ہیں، پاکستان سے جانے اور طلاق کے باوجود اب بھی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔

(جاری ہے)

دوسری اہلیہ ریحام خان کو خان صاحب سے بہت شکایات ہیں۔

یعنی درحقیقت سیاست کے شر سے شاید کوئی بھی نہیں بچ پایا اور یہی وجہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے، باشعور لوگ اپنی اولادوں کو سیاست میں آنے کی اجازت نہیں دیتے اور ملک بہتر قیادت سے محروم رہتا ہے۔

اس اخلاقی زوال کو بدتر کرنے اور قابل قبول بنانے میں سب نے اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ہر پارٹی کے حامی بحث و مباحثہ کرنے اور اپنے لیڈر کو باقی سب سے بہتر ثابت کرنے میں گھنٹوں صرف کرتے ہیں۔

جب ایک خاتون کے لیے ٹریکٹر ٹرالی جیسے باعث خفت الفاظ استعمال کیے گئے تو بہت سے لوگوں نے دفاع کیا اور بہت اس سے لطف اندوز بھی ہوئے۔

اسی طرح جب نوجوانوں کے سب سے مقبول لیڈر نے جوش خطابت میں مریم نواز کو اپنا نام لینے سے منع کرتے ہوئے اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑا تو بھی ان کو سب گناہ معاف تھے۔ مجھ جیسے چند لوگوں نے تنقید کی تو فوراً یاد دلایا گیا کہ چونکہ مخالف پارٹی بھی ایسا کچھ کہتی رہتی ہے اس لیے "عورت کارڈ" استعمال نہ کیا جائے۔

ان ذاتی حملوں سے شاید کوئی وقتی شہرت مل جاتی ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ تخت سب کے اچھالے جاتے ہیں اور حامیوں کی بے جا حمایت اور اندھی تقلید سیاہ کو سفید کرتی چلی جاتی ہے۔

ان غیر اخلاقی حرکات کا دفاع کر کے قابل قبول بنا دیا جاتا ہے اور اب بات اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ایک باپردہ خاتون پر عدت پوری نہ کرنے کا مقدمہ دائر کر دیا کیا گیا۔

عدت کا دورانیہ بھری عدالت میں زیربحث لایا گیا، گواہوں اور ثبوتوں کو پیش کیا گیا۔ بالآخر فیصلہ سابقہ شوہر کے حق میں دے کر خان صاحب اور ان کی موجودہ اہلیہ کو سزا بھی سنا دی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں ہر کوئی اپنے مطابق اسلام ضرور لاگو کرتا ہے وہاں یہ معیوب مقدمہ درج ہی کیسے کیا گیا؟ اسلام نے کون سی کتاب میں عدت کے دورانیے کو عدالت میں پیش کرنے کی اجازت دی ہے، جو جج نے نکاح کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔

کیا یہ مقدمہ بذات خود اسلامی ہے؟

مشہور سعودی سکالرعاصم الحكیم نے ایک ٹویٹ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ شوہر کا عدت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول مردوں کو حمل یا عدت سے متعلق گواہی دینے کی اجازت ہی نہیں اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک خاتون کا ذاتی مسئلہ ہے اور اسے صرف خواتین کے درمیان ہی حل کرنے کی اجازت ہے۔

مولانا طارق جمیل نے بہت دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی مفاد کے لیے کسی کی نجی زندگی کو یوں نشانہ بنانا اور اچھالنا بہت افسوس ناک ہے۔

صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ ہر پہلو سے یہ ایک شرمناک مقدمہ اور فیصلہ ہے، جس معاشرے میں زیادہ تر خواتین مردوں سے بھری ہوئی دکان میں سینٹری پیڈز خریدنے سے کتراتی ہوں وہاں اتنے مردوں کے درمیان ایک باپردہ خاتون کا کردار کسی براؤن لفافے کا بھی محتاج نہیں رہا؟ کسی گواہ کو ذاتی زندگی میں مداخلت پر ججھک محسوس نہیں ہوئی؟ ہمارے انصاف کے نظام کو کوئی سوالیہ نشان نظر نہیں آیا؟ ہر پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے کئی نکاح کر رکھے ہیں، کیا اب ہر کسی کو جانچ پڑتال سے گزر کر صفائی اور گواہی دینی ہو گی؟

اس مقدمے اور اس فیصلے کے سارے معاشرے پر دور رس نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

ہمارے معاشری میں کسی طلاق یافتہ خاتون کی زندگی پہلے ہی بہت دشوار ہوتی ہے اور ایسے میں بدلہ لینے کے لیے کوئی بھی سابقہ شوہر اس طرح کا مقدمہ دائر کر کے خاتون کی زندگی اجیرن کر سکتا ہے۔ سابقہ سسرال کسی بھی بیوه کا دوسرا نکاح نا ممکن بنا سکتا ہے۔ ہمارے عدالتی نظام اور فیصلوں پر پہلے سے ہی اتنے داغ ہیں، انہیں مزید داغ دار کرنے کا شاید چند لوگوں کو وقتی فائدہ ہوگیا ہو مگر ملک کی ایک دفعہ پھر صرف ہار ہی ہوئی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live مریم نواز سے متعلق تازہ ترین معلومات