سپریم کورٹ، حکومتی درخواست منظور ،جوڈیشل کونسل کو مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دیدی

جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی، چار ایک کی اکثریت سے مختصر فیصلہ جاری

بدھ 21 فروری 2024 21:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 فروری2024ء) سپریم کورٹ نے حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر)مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی کی اجازت دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ یا مستعفی ججز کیخلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری رکھنے بارے وفاقی حکومت کی اپیل پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس عرفان سعادت ،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، کیس میں عدالتی معاونین اور اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے۔

دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اگر کوئی جج سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی شروع ہونے کے بعد درمیان میں مستعفی ہو جائے تو کیا ہوگا ،عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہئے ۔

(جاری ہے)

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ بھارت میں کلکتہ ہائی کورٹ کی خاتون جج دوران انکوائری ریٹائر ہوئی تو اس کے خلاف کارروائی جاری رہی تھی۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ اگر ایک جج کے خلاف ریفرنس آئے اور سپریم جوڈیشل کونسل نے نوٹس نہ دیا ہو تو کیا وہ ختم ہو جائے گا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سارا مسئلہ چیف جسٹس کے بطور چیئرمین ریفرنس ٹیک اپ نہ کرنے سے بنا ہے، ججز کیخلاف شکایت نمٹانا صرف چیئرمین کا نہیں بلکہ کونسل کا کام ہے، پچھلے دنوں بھی چیف جسٹس نے کہا کہ 100سے زائد شکایت زیر التواء پڑی ہیں۔

اکرم شیخ نے کہا کہ جب کونسل اجلاس بلانا چیئرمین کا اختیار ہے تو ذمہ داری بھی چیئرمین پر ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے سامنے دو اہم نکات ہیں، ایک نکتہ یہ کہ ایک بار کونسل شکایت پر نوٹس کرچکی تو جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ سے ختم ہو جائے گی دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف ریٹائرمنٹ کے بعد نئے سرے سے ریفرنس ٹیک اپ ہوسکتا ہی ،اکرم شیخ نے کہاکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جج ریٹائرڈ ہو جائے اور 10 سال بعد کوئی شکایت اٹھا کر اس کے خلاف کارروائی کردی جائے۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ عافیہ شہربانو کیس جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کا جھگڑا نہیں ہے، عافیہ شہربانو کیس میں ایک جج کی ریٹائرمنٹ پر اس کے کیخلاف شکایت غیر موثر ہوجانے کا معاملہ اٹھایا گیا ہے، اب مدعا یہ ہے کہ جب کونسل شکایت غیر موثر قرار دے چکی تو کیا کیا جائی ۔عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ کیس کے فریقین اور میرٹس پر بات نہیں کروں گا، بعدازاں عدالتی معاون اکرم شیخ کے دلائل مکمل ہوگئے۔

دوسرے عدالتی معاون خواجہ حارث نے کہاکہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے، ضروری نہیں کہ کوئی جج اسی وجہ سے استعفیٰ دے کہ اس پر لگے الزامات سچ ہیں، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفیٰ دے سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا جج کو اپنے استعفے کی وجوہات بیان نہیں کرنی چاہئیں ،خواجہ حارث نے کہا کہ اگر تو قانون جج کو استعفے پر وجوہات بتانے کا پابند بناتا ہے تو دینا لازم ہے، آرٹیکل 209کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہی اگر جج ریٹائرڈ یا مستعفی ہوچکا ہے تو کونسل صدر کو سفارش کیا کرے گی ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک دفعہ شروع کی گئی کارروائی کیا ایک دم سے ختم کردیں ۔خواجہ حارث نے کہا کہ مثال کے طور پر 11 تاریخ کو جج استعفیٰ دے جائے اور 12 تاریخ کو کونسل کارروائی کرے تو جج تو موجود ہی نہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائے گا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری تو لازم ہوگی، نتیجہ کیا ہوگا یہ بعد میں دیکھا جائے گا، کیا جج نہیں چاہے گا کہ خود پر لگے الزامات سے بری ہوکر گھر جائی ۔

خواجہ حارث نے کہا کہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزا یافتہ شخص انتقال کر جائے تو اس کی سزا ختم ہوجاتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر سپریم جوڈیشل کونسل فیصلہ کرکے کہ اس نے جج کے خلاف کارروائی کرنی ہے تو اسے کون روک سکتا ہی ۔خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ کونسل کو کارروائی سے روک سکتی ہے، سپریم کورٹ نے افتخار محمد چوہدری کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیس میں کونسل کو کارروائی سے روکا تھا، اگر کوئی جج جرم کرے تو عام قوانین کا نفاذ اس پر بھی ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر کوئی ایس ایچ او جج کیخلاف مقدمہ درج کرے گا تو کیا وہ جج آزادانہ فیصلہ دے سکے گا ۔اس دوران جسٹس مسرت ہلالی نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ آپ عدالتی معاون ہیں یا وکیل صفائی ،اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تہمت تو مجھ پر کوئی اور ہے مگر میں عدالتی معاون ہوں، ہمیشہ ایک ہی موقف رہا ہے کہ جو آئین و قانون میں درج ہے اس سے باہر نہیں نکلنا چاہئے۔

بعدازاں عدالتی معاون خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہوگئے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جج کے دوران سروس کئے گئے مس کنڈکٹ پر کارروائی کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہی اختیار ہے عدلیہ،عوام اور حکومت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے عدلیہ بنیادی حقوق کی ضامن ہے اس لئے اسے آزاد ہونا چاہیے، عدلیہ کی آزادی کے لیے ججز کا احتساب لازم ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر احتساب سے اجتناب برتا جائے تو اس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی، عدلیہ کی آزادی کیلئے متحرک ہونا چاہیے، آرٹیکل 209کے تحت ججز کے خلاف انکوائری کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ضروری نہیں کہ ان کی برطرفی کی سفارش کی جائے، اگر کوئی جج ذہنی بیماری میں مبتلا ہو تو اسکا علاج ممکن ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن بیماریوں کا علاج ممکن ہے ان کی بنیاد پر کونسل جج کو کچھ عرصے کی رخصت دے سکتی ہے ضروری نہیں برطرف کرے، وقت کی پابندی نہ کرنے پر جج کے خلاف شکایت ہو تو کونسل برطرفی کے بجائے تنبیہ کر سکتی ہے، کونسل کے سامنے شکایت آ جائے تو اس پر کوئی نہ کوئی رائے دینا لازم ہے، جج ریٹائرمنٹ کے بعد چیف الیکشن کمشنر ،شریعت کورٹ کے ججز یا ٹریبیونلز جیسے آئینی عہدوں پر مقرر ہوتے ہیں، ضروری ہے کہ جج کے اوپر لگے الزام پر کونسل اپنی رائے دے تاکہ آئینی عہدوں پر تعیناتی ہوسکے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز کا احتساب ہونا چاہئے لیکن اس احتساب سے سپریم کورٹ کا وقار کم نہ ہو، ججز کیخلاف کارروائی کوئی اور ادارہ نہیں کرسکتا ، جج کیخلاف کارروائی اس کے حاضر سروس ہونے کے دورانئے سے متعلق شکایت پر ہو سکتی ہے، عوامی اعتماد کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کو شفافیت سے کام کرنا چاہئے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ مثال موجود ہے کہ ایک جج کیخلاف آرٹیکل 209کی کارروائی شروع کی گئی اور ان کے استعفیٰ پر ختم کر دی گئی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ یہ معاملہ 2019ء کا ہے تو اٹارنی جنرل آفس نے 5سال تک کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کسی جج کے خلاف کارروائی دوبارہ کرنی ہے یا نہیں یہ فیصلہ کونسل کا ہوگا۔بعدازاں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے چار ایک کی اکثریت سے فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل جزوی طور پر منظور کی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر)مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ جب سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہو سکتی۔مختصر فیصلے میں کہا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کیخلاف زیرالتوا شکایات پر کارروائی کرنا یا نہ کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کی صوابدید ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپیل زائد المیعاد ہونے کی حد تک فیصلے سے اختلاف ہے ،تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔