یورپ میں کسانوں کا احتجاج جاری‘یونین کے ہیڈکواٹرزبرسلز میں کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں

ہمارے فارم برباد ہورہے ہیں ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے ‘حکومتیں غیرقانونی و غیرانسانی طریقے سے کسانوں کے معاملات میں دخل اندازی کررہی ہیں.کسان راہنماﺅں کا موقف

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 27 فروری 2024 15:54

یورپ میں کسانوں کا احتجاج جاری‘یونین کے ہیڈکواٹرزبرسلز میں کسانوں ..
برسلز(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔27 فروری۔2024 ) یورپ میں کسانوں کا احتجاج جاری ہے اور یورپی یونین کے ہیڈکواٹرزبرسلز میں کسانوں نے پولیس پر کھاد ‘ بوتلیں اور انڈے پھینکے کسانوں کا کہنا ہے کہ یونین کی پالیسی سے ان کے فارم تباہ ہورہے ہیں جبکہ یوکرین سے زرعی اجناس درآمد کرنے کا فیصلہ سیاسی ہے جس کی زد میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے کسان آرہے ہیں.

(جاری ہے)

کسانوں نے اپنے احتجاج کے دوران ٹائروں کو آگ لگا کر اور ٹریکٹر کھڑے کرکے راستوں کو بند کردیا جس سے شہر کے وسط میں ٹریفک متاثرہورہی ہے یہ مظاہرے ایسے وقت میں کیئے جارہے ہیں جب یورپی یونین کے وزرائے زراعت کا اجلاس برسلزمیں جاری ہے برسلز پولیس نے بتایا کہ ایک ہزار کے قریب ٹریکٹر شہر میں داخل ہوئے جوکہ یورپی یونین کے ہیڈکواٹرزکی جانب جانا چاہتے تھے تاہم اہم اجلاس کی وجہ سے کسانوں کو اس طرف جانے سے روکا گیا جس پر ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی .

ہنگامہ آرائی روکنے کے لیے پولیس نے عارضی رکاوٹوں اور خاردار تاروں‘ مظاہرین پر آنسو گیس اور واٹرکینین کا استعمال کیا پولیس کا موقف ہے کہ یونین کے ہیڈکواٹرکا دفاع ان کے بنیادی فرائض میں شامل ہے پولیس کی جانب سے کاروائی کے بعد مظاہرین نے سٹرکوں پر ٹائرجلائے‘اور ٹریکٹروں کے ذریعے رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کی . کسان اس بات پر ناراض ہیں کہ یونین کے رکن ممالک میں سستی درآمدات یورپی یونین کے معیارات سے کم ترہیں تاہم یونین اپنے کسانوں کو نامناسب پالیسیوں کے ذریعے دبا رہی ہے شمالی بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک کسان ماریکے وان ڈی ویور نے کہا کہ ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ہمارے فارم برباد ہورہے ہیں ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے ‘انہوں نے کہا کہ کسان فارم پر آنکھ کھولتا ہے اور زندگی بھر سخت محنت کے بعد فارم پر ہی دم توڑدیتا ہے یہ ہماری زندگی ہے جس میں حکومتیں غیرقانونی و غیرانسانی طریقے سے دخل اندازی کررہی ہیں.

پولیس کی جانب سے کاروائیوں کے بعد احتجاج پرتشددہوگیا اور کسانوں نے جواب میں پولیس پر بوتلیں‘انڈے‘کھاد اور پٹاخے پھینکے ‘کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کا روزگارغیر پائیدار ہوتاجا رہا ہے‘ لاگتیں بڑھ رہی ہیں لیکن انہیں جو قیمتیں مل رہی ہیں وہی برقرار ہیں جس کی وجہ سے وہ یوکرین جیسی جگہوں سے سستی درآمدات یا تجارتی معاہدوں سے نمٹ نہیں سکتے انہوں نے کہا کہ ڈیزل سمیت پیدواری اخراجات میں اضافے پر یورپ کی حکومتیں کسانوں کی مدد کے لیے کچھ نہیں کر رہیں.