وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹرآصف محمود جاہ کی ہنگامی پریس کانفرنس، 2023 میں ایف ٹی او نے 8128 ٹیکس دہندگان کی شکایات پر فیصلے کئے

Shahid Nazir Ch شاہد نذیر چودھری جمعہ 8 مارچ 2024 17:36

لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔08 مارچ2024 ء) وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ، مشیر عدیلہ رحمٰن، مشیر خالد جاوید اور مشیر ڈاکٹر شہاب نے کہا کہ ایف ٹی او نے ٹیکس دہندگان اور ایف بی آر کو ایک پیج پر لانے میں اہم کردار ادا کیا، اور تقریباً 94 فیصد سے زائد شکایات پر فیصلوں سے شکایات کنندگان اور محکمے کا متفق ہونا منفرد بات ہے۔ انہوں نےایف ٹی او کے ادارے کی سالانہ رپورٹ برائے کیلنڈر ایئر 2023 پیش کرتے ہوئےکہا کہ، 2023 میں ایف ٹی او نے 8128 ٹیکس دہندگان کی شکایات پر فیصلے کئے۔

جن میں سے ایف بی آر نے 7600 شکایات کو درست تسلیم کرکے انہیں حل کر دیا۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے صرف ساڑھے 6 فیصد فیصلوں سے شکایت کنندہ یا ایف بی آر نے اختلاف کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وفاقی ٹیکس محتسب کو 65 دنوں میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے لیکن اس مدت میں 20 دنوں کی کمی کے بعد اب ہر فیصلہ تقریبا 44 دنوں میں کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس دوران میڈیکل کالجز سے پورے ٹیکس کی وصولی کے لئے متعدد ازخود نوٹسز لیے گئے جن سے وسیع پیمانے پر خرابیوں کا ادراک ہوا۔

بعض میڈیکل کالجز انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 2(36) کےتحت نان پرافٹ آرگنائزیشن کے طور پر چلائے جا رہے تھے مگر این او سی کی تجدید درخواستیں 2018ء سے زیر التواء تھیں۔ یوں سالانہ 60، 60 کروڑ روپے پر ٹیکس کو معاف کرایا گیا۔ اب، ایف بی آر نے ایف ٹی او کی سفارش پر میڈیکل کالجز کے بارے میں سخت کارروائی شروع کر دی ہے، اور ان کے تمام بینک اکائونٹس کو چیک کیا جا رہا ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب نے بجلی کے بلوں پر عائد انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کے جواز کی بھی تحقیقات کیں، جن سے متعدد قوانین کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ۔ ایف ٹی او کی سفارشات سے بجلی کے بالخصوص بڑے نجی صارفین کو ماہانہ ہزاروں روپے کی بچت کا امکان ہے ۔ متعدد صارفین 25 ہزار سے زائد انکم ٹیکس کو ایڈجسٹ نہیں کروا رہے تھے ایف ٹی او نے ان کی ایڈجسٹمنٹ کے لئے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں، پنجاب حکومت اور ایف بی آر کے نمائندوں پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی بنانے کی سفارش کی تھی اس پر عمل درآمد آخری مرحلے میں ہے ۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ٹیکس دہندگان کے سیلز ٹیکس کے تمام ریفنڈ دس روز میں واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب اس معاملے میں پہلے سے سرگرم ہے، اور گزشتہ تین برسوں سے سالانہ 8 ارب روپے کے لگ بھگ ریفنڈ واپس دلایا گیا ہے۔ انکم ٹیکس میں تقریباً 3 ہزار، سیلز ٹیکس میں سوا دو ہزار اور کسٹمز ڈیوٹی میں تقریباً 1500 ٹیکس دہندگان کو ریفنڈ واپس دلایا جا چکاہے۔

سب سے زیادہ شکایات کراچی کے تاجروں کو تھیں۔ لاہور، ملتان اور پشاور کے ٹیکس دہندگان کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ داروں اور پنشنرز کے لئے آسان ترین ریٹرن فارم بنانے کی سفارشات سے 14 لاکھ ٹیکس دہندگان کو فائدہ پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ ایک وفاقی ڈپٹی سیکرٹری کی انکم ٹیکس ریٹرن میں 23ہزار 8 سو جعلی انٹریز کی گئیں، کسی جعلساز نے انہیں ایک بڑے درآمد کنندہ کے طور پر ظاہر کردیا۔

انہیں بھی ریلیف دیا گیا۔ ایک شکایت کنندہ نے ایف ٹی او بتایا کہ وہ بطور ویسل بلوئر رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کا انکشاف کیا لیکن محکمہ صرف ڈیڑھ کروڑ روپے ریکور کر سکا۔ صدر مملکت نے بھی اس کا نوٹس لیا اور ایف بی آر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ایف بی آر کے ایک فیصلے سے ملتان میں برٹش دور کی ایک قدیم لائبریری کو بھی ریلیف حاصل ہوا۔

اس کے ملازمین کی تنخواہوں سے تقریباً پونے 2 لاکھ روپے کا ٹیکس کاٹا جا رہا تھا۔ ایف ٹی او کی مداخلت سے برٹش دور کی یہ لائبریری اضافی ٹیکس سے محفوظ ہو گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ، وفاقی ٹیکس محتسب نے جائیدادوں کی قیمتوں کے تعین میں گھپلوں کا ازخود نوٹس لیا جن سے مین روڈ اور اس کی ذیلی سڑکوں کی قیمتوں میں یکسانیت کا انکشاف ہوا۔ مثلاً مین روڈ پر واقع دکانوں اور ان کی ذیلی سڑکوں پر قائم رہائشی مکانات کی قیمت برابر طے کی گئی۔

ایف ٹی او کی سفارشات سے ذیلی سڑکوں پر رہنے والوں کو بڑے پیمانے پر ریلیف ملنے کا امکان ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ متعدد ہاوسنگ سوسائٹیوں میں پلاٹوں کی قیمتیں انتہائی کم مقرر کی گئیں۔ ایف ٹی او کے اس ایک فیصلے سے ایف بی آر کو کئی ارب روپے کے محصولات ملنے کا امکان ہے۔ مقررین نے کہا کہ، سال2023 میں پرال (PRAL) کے اہلکاروں کی جانب سے ناجائز، غیر قانونی طور پر رجسٹریشن کی متعدد شکایات موصول ہوئیں۔

لوگوں کی جعلی رجسٹریشن کی گئی ان کے نام سے این ٹی این حاصل کئے گئے۔ موبائل نمبر اور ای میل ایڈریس بھی بدل دئیے گئے تھے۔ ایسا ایک کیس امریکی عدالت میں بھی جا سکتا ہے۔ کیونکہ امریکی ٹیکس پیئر کو پاکستان میں ملنے والا ناجائز نوٹس ان کیلئے امریکہ میں مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے انہوں نے امریکی عدالت میں پیش کرنے کیلئے ایک حلف نامہ مانگ لیا ہے۔

جس سے یہ ثابت ہو کہ مذکورہ ریٹرن اور ظاہر کردہ اثاثے ان کے نہیں ہیں۔ 10ہزار پائونڈز کی بلا جواز ضبطی سے متعلق ایک فیصلے میں ایف ٹی او غیر ملکی کرنسی سے متعلق تمام قوانین بیرون ملک روانگی کے لاونجز اور پارکنگ وغیرہ میں بل بورڈز پر لکھنے کی ہدایت دی۔ وفاقی ٹیکس محتسب کے دفاتر میں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ 49 ارب روپے کے ریفنڈز ٹیکس کی ذمہ داری میں ایڈجسٹ کروائے گئے تھے۔

تقریباً 15ارب 56 کروڑ روپے کی ایڈجسٹمنٹ قانون کے مطابق تھی، باقی ماندہ 37 ارب روپے کی جانچ پڑتال ہی نہیں کی گئی۔ 2007 سے 2021 تک 8 ہزارسے زائد ٹیکس دہندگان نے اربوں روپے کے ٹیکسز اپنے ریفنڈ میں ایڈجسٹ کرائے حالانکہ ان کا کوئی ریفنڈ بنتا ہی نہیں تھا۔ ایف ٹی او کی سفارش پر ان کے حوالے سے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے جس سے محکمے کو کئی ارب روپے واپس ملنے کا امکان ہے۔