بھارتی شہریت: متنازعہ قانون کا نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

DW ڈی ڈبلیو منگل 12 مارچ 2024 15:40

بھارتی شہریت: متنازعہ قانون کا نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2024ء) بھارت کی تقریباﹰ تمام مسلم تنظیموں نے 12 مارچ منگل کے روز متنازعہ قرار دیے جانے والے شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے نفاذ کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ’’غیر آئینی‘‘ اور مسلمانوں کے ساتھ ’’تفریقی سلوک‘‘ قرار دیا۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کو دسمبر 2019 میں منظور کیا تھا، تاہم اس کے خلاف بڑے پیمانے پر ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے سبب اس کا نفاذ روک دیا گیا تھا۔

نئی دہلی حکومت نے 11 مارچ پیر کے روز اس قانون کے باقاعدہ نفاذ کا نوٹس جاری کیا اور اب اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ اس قانون میں بھارت کے پڑوسی ممالک سے نقل مکانی کر کے آنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے، تاہم مسلمانوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔

(جاری ہے)

آئندہ چند روز میں بھارتی انتخابی کمیشن عام انتخابات کا اعلان کرنے والا ہے اور حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ مودی حکومت عام انتخابات سے عین قبل اس قانون کے نفاذ کا اعلان کر کے ملک کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

مسلم تنظیموں نے کیا کہا؟

بھارت کی تقریباﹰ تمام مسلم تنظیموں نے 12 مارچ منگل کے روز ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا، ’’سی اے اے، مساوات اور انصاف کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرتا ہے۔ ہم عام انتخابات کے اعلان سے عین قبل شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) کے نفاذ کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو نے اس سلسلے میں جب جماعت اسلامی ہند سے رابطہ کیا، تو اس جماعت نے اس حوالے سے ہونے والی میٹنگ کا ذکر کرتے ہوئے مشترکہ بیان کی تفصیلات شیئر کیں۔

اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’شہریت سے متعلق سن 1955 کے ایکٹ میں سیکشن دو کے اندر شق بی کا اندراج متعصبانہ سلوک پر مبنی ہے، جس میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی، یا مسیحی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذکر ہے۔‘‘

’’اس ایکٹ میں مذہبی وابستگی کی بنیاد پر مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، جو بھارتی آئین کے تحت مساوات اور سیکولرزم کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی ہے۔

یوں اس قانون کے ساتھ مساوی سلوک کا اصول بھی مجروح ہوتا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ملک کے سماجی تانے بانے کے لیے خطرہ ہے، جو شمولیت اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔‘‘

ان مسلم تنظیموں کا کہنا ہے، ’’ہمارا ماننا ہے کہ مذہب، ذات پات یا عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ برابری کے اصولوں کی بنیاد پر شہریت دی جانا چاہیے۔

تاہم اس ایکٹ کی دفعات ان اصولوں سے براہ راست متصادم ہیں اور ہماری قوم کے سیکولر تانے بانے کے لیے خطرہ ہیں۔‘‘

’’ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ سن 2019 کو منسوخ کرے اور بھارتی آئین میں شامل شمولیت اور مساوات کی اقدار کو برقرار رکھے۔‘‘

اس مشترکہ بیان پر جماعت اسلامی ہند، جمعیت علماء ہند، جمعیت اہل حدیث، امارت شرعیہ بہار اور آل انڈیا ملی کونسل جیسی متعدد مسلم تنظیموں کے سربراہان کے دستخط ہیں۔

عدالت سے رجوع

اسی دوران انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے منگل کے روز ہی ملکی سپریم کورٹ میں ایک فوری درخواست دائر کر دی، جس میں شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کی منسوخی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس درخواست میں بھی یہی دلیل دی گئی ہے کہ سی اے اے ’’غیر آئینی اور امتیازی‘‘ ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہے۔

حزب اختلاف کی طرف سے بھی تنقید

ملکی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بھی اس قانون کے نفاذ پر شدید تنقید کی ہے اور اس اقدام کو ’’عام انتخابات سے قبل عوام کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش‘‘ کا نام دیا ہے۔

جنوبی ریاستوں کیرالہ، تامل ناڈو اور مغربی بنگال کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان یونین ریاستوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اجازت نہیں دیں گے۔

کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ یہ قانون اپنی منظوری کے بعد تین سے لے کر چھ ماہ تک کے عرصے میں نافذ ہونا چاہیے تھا، تاہم مودی حکومت نے سپریم کورٹ سے اس مدت میں توسیع کی نو مرتبہ درخواست کی۔

انہوں نے کہا، ’’یہ محض پولرائزیشن کے لیے ہے۔ اور بنگال اور آسام میں انتخابات پر اثرا نداز ہونے کے لیے۔

اگر انہیں (حکومت کو یہ کام) ایمانداری سے کرنا تھا، تو سن 2020 میں ایسا کیوں نہ کیا گیا؟ اب انتخابات سے ایک ماہ پہلے یہ قانون کیوں نافذ کیا گیا؟ یہ داخلی سماجی تقسیم پھیلانے کی حکمت عملی ہے۔‘‘

یہ قانون متنازع کیوں ہے؟

بھارتی پارلیمان نے دسمبر 2019ء میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی منظوری دی تھی، جس کے تحت یکم جنوری 2015ء سے قبل بھارت میں موجود پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہندو، جین، سکھ، پارسی، مسیحی اور بدھ شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کی بات کی گئی ہے۔

تاہم اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین اسے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور بھارتی آئین کے سیکولر اصولوں کے منافی قرار دیتے ہیں۔

یہ قانون اس تصور کی بنیاد پر مذہبی اقلیتی باشندوں کو بھارتی شہریت دیتا ہے کہ انہیں ان تینوں مسلم اکثریتی ممالک میں اپنے مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا رہتا ہے۔

ابتدا سے ہی اس قانون پر سخت تنقید ہوتی رہی ہے اور اسے جانبدارانہ قرار دیا گیا۔ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ حکومت نے تاہم ان مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیلوں میں ڈال دیا تھا، جن میں سے متعدد اب بھی قید میں ہیں۔