پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواستیں خارج کر دیں

بینچ کے سربراہ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے محفوظ فیصلہ سنایا،پشاور ہائیکورٹ کے5 رکنی لارجر بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواست پر سماعت کی

Faisal Alvi فیصل علوی جمعرات 14 مارچ 2024 13:20

پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواستیں خارج ..
پشاور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔14 مارچ2024 ء) پشاور ہائیکورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی دائردرخواستیںخارج کر دیں،بینچ کے سربراہ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے محفوظ فیصلہ سنایا،پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کیلئے دائر درخواستیں خارج کیں۔جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی، بنچ میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور سید ارشد علی شامل ہیں۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں دلائل دئیے جب کہ گزشتہ روز پیش نہ ہونے پر بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے معذرت بھی کی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہمارے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں گئے اور الگ الگ نشانات دیئے گئے۔

(جاری ہے)

تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں 86 کے پی میں 90 پنجاب میں 107 سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک ممبر نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔

سنی اتحاد کونسل 78 سیٹوں کی حقدار ہے۔ ہمارا کیس قومی اسمبلی اور کے پی اسمبلی حد تک محدود ہے۔ خیبرپختونخوا میں سنی اتحاد کونسل کی 26 مخصوص نشستیں بنتی ہے اور قومی اسمبلی میں کے پی سے 8 بنتی ہی۔بیرسٹر ظفر نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کو درخواست کیا کہ یہ سیٹیں ہمیں دے دیں، بالکل ایسا جیسے ایک خالی زمین ہوں اور کوئی آئے اس پر قبضہ کرلیں۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آپ قبضہ پر زیادہ زور دے رہے ہیں۔ یہ تو الیکشن کمیشن نے دئیے۔دوران سماعت علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن سے پہلے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان لیا گیا، پشاور ہائیکورٹ نے تاریخی فیصلہ دے کر بلا واپس کردیا تھا، سپریم کورٹ نے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ دے کربلا واپس لیا، سنی اتحاد کونسل رجسٹرڈ پارٹی ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی ہے، الیکشن میں حصہ نہ لینا اتنی بڑی بات نہیں، بعض اوقات سیاسی جماعتیں انتخابات سے بائیکاٹ کر سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری توقع تھی کہ مخصوص نشستیں مل جائے گی،الیکشن کمیشن پابند تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو 78 سیٹیں دے دیتے، لیکن الیکشن کمیشن نے ایسا نہیں کیا ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ہم پورے ملک کی مخصوص نشستوں کا معاملہ سن رہے ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہیں صرف قومی اور خیبرپختونخوا کا آپ سن رہے ہیں۔جسٹس شکیل نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیتے پھرکیا ہوگا، اس پر علی ظفر نے کہا کہ میں پہلے اس پر بات کر رہا ہوں کہ میں سیاسی جماعت ہوں، تو میرے بنیادی آئینی حقوق کیا ہیں؟ آرٹیکل 17 کے تحت میرے کئی بنیادی حقوق بنتے ہیں، ایک جماعت الیکشن نہ لڑے تو بھی سیاسی جماعت ہوتی ہے، یہ ضروری نہیں کہ کوئی پارٹی الیکشن لڑے، آرٹیکل 17 کے سب آرٹیکل 2 میں ہمارے حقوق موجود ہیں، آرٹیکل 17 کہتا ہے کہ ہر شہری کا حق ہے کسی پارٹی کا حصہ اور یا اپنی پارٹی بنائیں۔

علی ظفر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے دور رکھا گیا، الیکشن کمیشن پارلیمانی پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرنے میں کنفیوژ ہے لیکن پرویز الٰہی کیس میں پارلیمانی اور پولیٹیکل پارٹی کی تعریف موجود ہے۔جسٹس ایس ایم عتیق نے سوال کیا کہ آزاد امیدوار اسمبلی میں اکٹھے ہوجائیں تو کیا ان کو مخصوص نشستیں ملیں گی؟ یا آزاد امیدواروں کو پارٹی جوائن کرنا ہوگا؟عدالتی استفسار پر علی ظفر نے کہا کہ آزاد امیدوار کسی پارٹی کو جوائن کریں گے تو نشستیں ملیں گی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ باپ پارٹی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، یہ اعلامیہ ہے فیصلہ نہیں، یہ درخواستیں تمام اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں کےلیے ہیں، یہ درخواستیں اس عدالت کے دائرہ اختیار سے بھی باہر ہیں، سندھ ہائیکورٹ میں دی گئی درخواستیں ان درخواستوں سے مماثلت رکھتی ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ زیر و جمع زیرو، زیرو ہوتا ہے اور زیرو جمع ایک، ایک ہوتا ہے۔بعد ازاں وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سناتے ہوئے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستیں خارج کردیں۔