,اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا معاملہ، وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی منظوری دیدی ،انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی ہوں گے

ؔنکوائری کمیشن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات بارے تحقیقات کریگا، جسٹس تصدق حسین جیلانی اٴْس سات رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے تین نومبر 2007 میں سابق فوجی صدر کی طرف سے ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری تھا ب* حکم میں کہا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اٴْٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے، بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان انہوں نے کم و بیش 7 ماہ خدمات سرانجام دیں

ہفتہ 30 مارچ 2024 19:25

aاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کا معاملہ، وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی منظوری دیدی انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی ہوں گے،وزیراعظم شہباز شریف نے دو روز قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے دوران کمیشن بنانے کااعلان کیا تھا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔جسٹس تصدیق حسین جیلانی چھ جولائی 1949 کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایف سی کالج سے ایم اے سیاسیات کیا اور اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔اٴْنھوں نے 1974 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان سے بطور وکیل اپنی پریکٹس کا آغاز کیا۔ وہ 1979 میں سابق فوجی آمر ضیائ الحق کے دور میں پنجاب کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل تعینات ہوئے۔

(جاری ہے)

1988 میں وہ پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل تعینات کیے گئے۔ اٴْنھیں 1993 میں ترقی دے کر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے پر تعینات کیا گیا۔دھیمے مزاج والے تصدق حسین جیلانی کو سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں سات اگست 1994 میں لاہور ہائی کورٹ کا جج اور تقریباً دس سال کے بعد جولائی 2004 میں سپریم کورٹ کا جج تعینات کیا گیا۔ جسٹس تصدق حسین جیلانی اٴْس سات رکنی بینچ کا بھی حصہ تھے جس نے تین نومبر 2007 میں سابق فوجی صدر کی طرف سے ملک میں لگائی جانے والی ایمرجنسی کے موقع پر حکم جاری کیا تھا کہ اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف نہ اٴْٹھائے اور بیوروکریسی فوجی آمر کا کوئی حکم نہ مانے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اپنے پیش رو جسٹس ریٹائرڈ افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد 12 دسمبر 2013 کو چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان انہوں نے کم و بیش 7 ماہ خدمات سرانجام دیں اور 5 جولائی 2014 کو ریٹائرڈ ہوئے،یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے سپریم کورٹ میں ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔

وزیراعظم اور چیف جسٹس پاکستان کی ملاقات چیف جسٹس کے چیمبر میں ہوئی، اس اہم ملاقات میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی شریک تھے۔وزیراعظم شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات ایک گھنٹہ 25 منٹ جاری رہی تھی۔ ملاقات کے حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذر تارڑ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ روز معاملے پر چیف جسٹس نے فل کورٹ میٹنگ کی، چیف جسٹس نے خواہش ظاہر کی معاملے پر وزیر اعظم سے بھی مشاورت کی جائے۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سے ملاقات کیلئے خواہش کا اظہار کیا تھا۔وزیراعظم نے ملاقات میں یقین دہانی کروائی تھی کہ اس معاملے کی چھان بین ہونی چاہیے۔معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اچھی ساکھ رکھنے والے ریٹائرڈججز کی سربراہی میں اس معاملے کی انکوائری کروائی جائیگی۔وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ملاقات میں کہا تھا کہ ادار ہ جاتی مداخلت نہیں ہونی چاہئے اور حکومت اپنے فرائض سے غافل نہیں۔جو خط آیااس کی سوشل میڈیا پر بہت دھوم تھی۔ماضی میں بھی اس طرح کی آوازیں آتی رہی ہیں، وزیراعظم اور ان کا خاندان خود زیر عتاب رہا ہے، ایسا واقعہ ہے تو مستقبل میں اس کی روک تھام ہوگی۔