Live Updates

عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ برداشت نہیں کریں گے، چیف جسٹس کاآئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دینے کا عندیہ

بہت کچھ ہو رہا ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا‘یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی‘ ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے. جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 3 اپریل 2024 15:29

عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ برداشت نہیں کریں گے، چیف جسٹس کاآئندہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 اپریل۔2024 ) عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ برداشت نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہت کچھ ہو رہا ہے مگر کوئی اس پر بات نہیں کرتا‘یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید یہ عدالت بھی ملوث تھی جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ججوں کا خط یہ بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے.

(جاری ہے)

از خود نوٹس پر سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں ملزم ایگزیکٹیو ہے اور یہ معاملہ کیسے اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکتا ہے جب ملزم ہی اس کی تحقیقات کرنا شروع کر دے. انھوں نے کہا کہ ذمہ داروں کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہو گا بینچ میں موجود جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے لکھے گئے خطوط کو ایک غنیمت جانتے ہوئے اس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سدباب کیا جاسکے.

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ملک کی تمام ہائی کورٹس کے پاس اختیارات واضح ہیں لیکن آئین میں یہ واضح نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کیسے ہائی کورٹ کے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے. انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے اور ذمہ داروں کے تعین کے ساتھ ساتھ طریقہ کار بھی واضح کرنا ہوگا اور اس ضمن میں ادارہ جاتی ردعمل آنا بہت ضروری ہے جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ ایگزیکٹیو عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتی ہے لیکن اس وقت عدلیہ کو سخت دھچکا پہنچا جب نو مئی کے واقعات میں ملوث پانچ ملزمان کی سپریم کورٹ نے ضمانتیں منظور کیں اور ان کے رہا ہونے کے بعد انھیں خدشہ نقض امن کے تحت دوبارہ حراست میں لے لیا گیا.

انہوں نے کہا کہ پراسیکوشن ایگزیکٹیو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اس لیے یہ ایگزیکٹیو کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس آیا اور پھر خارج ہوا جس پر اس وقت کے وزیر اعظم(عمران خان)نے تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی جس نے ریفرنس دائر کرنے یا یہ غلطی سرزد کرنے کا مشورہ دیا تھا جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ شتر مرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کر نہیں بیٹھ سکتے.

چیف جسٹس نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا حکم سمجھیں کہ عدلیہ میں کوئی مداخلت برداشت نہیں ہو گی انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آج اس معاملے پر سات رکنی بینچ اس لیے بیٹھا کیونکہ اسلام آباد میں سات ججز ہی موجود تھے انہوں نے اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے اس معاملے پر فل کورٹ بنا دیں انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ ججز کے خط میں میرے چیف جسٹس کے دور میں کیسی مداخلت کا ذکر نہیں کیا گیا اگر میرے دور میں کوئی مداخلت ہوئی تو بتائیں پھر دیکھیں اس کا کیا ہوتا ہے.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا حملہ ہوگا تو سب سے پہلے میں اور میرے ساتھی کھڑے ہوں گے، عدلیہ کے کام میں مداخلت ہم پسند نہیں کرتے اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ وفاقی حکومت نے انکوائری کے لیے کوئی اقدام خود نہیں اٹھایا تھا، سپریم کورٹ نے دو نام تجویزکیے تھے، ناصرالملک اور تصدق حسین جیلانی کے، تصدق حسین جیلانی سے وزیر قانون لاہور میں ملے اور بتایا آپ کا نام آیا ہے.

چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہم نے چیمبریا گھر میں نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں باقاعدہ میٹنگ کی، میٹنگ میں وزیراعظم بطور انتظامیہ بطور سربراہ مقننہ بیٹھے تھے، میٹنگ میں دوسری جانب عدلیہ کی انتظامیہ بیٹھی تھی. اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس(ر) تصدق جیلانی نے کہا آپ ٹی او آر فائنل کر کے دیں تو جواب دوں گا، تصدق حسین جیلانی سے دوبارہ پوچھا گیا، پھر نام کا اعلان کیا گیا، حکومت نے درخواست کی تھی کمیشن کے لیے سپریم کورٹ نام دے، یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے یہ وفاقی حکومت کا بنایا ہوا کمیشن ہے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے پوچھا کمیشن کو کون سی جگہ دی جائے گی، انہیں بتایا گیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ کی بلڈنگ میں کمیشن کام کرے گا.

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم نے ایسے نام تجویز کیے جن پر کم سے کم انگلی اٹھائی جائے، سوشل میڈیا پر ان کے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں اگر آپ کو کوئی اختلاف ہے تو لکھ سکتے تھے، اپنے متعلقہ اداروں کو لکھ سکتے تھے، تصدق جیلانی شریف آدمی ہیں، وہ تو جواب نہیں دیں گے، وہ شریف آدمی تھے اس لیے انہوں نے انکار کر دیا چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ذاتی حملے ہوئے اور ایساماحول بنایاگیا تو کون شریف آدمی ایسی قومی سروس کرے گا؟ سوشل میڈیا سے عجیب عجیب باتیں سابق چیف جسٹس کے بارے میں شروع کردی گئیں، مجھے شرمندگی ہو رہی تھی کہ ایک شریف آدمی جسے ہم نے کمیشن کیلئے نامزد کیا تھا اس پر حملے شروع ہوگئے.

چیف جسٹس پاکستان نے کہا میں جمہوریت پریقین رکھتاہوں، میں نے ہر موقع پر مشاورت کی ہے، کیا ہم نے فیصلہ کرلیا ہے کہ ہمیں اس ملک اور قوم کو برباد کرنا ہے، آئین کو پڑھنا ہم نے چھوڑ دیا ہے، وزیراعظم ایڈمنسٹریٹر ہیڈ بھی ہیں اور ایک حد تک مقننہ کے بھی ہیڈ ہوتے ہیں. قاضی فائز عیسی نے کہا جب سے چیف جسٹس بنا ہوں کہہ رہا ہوں اپنی آئینی حدود میں رہ کرکام کرنا چاہیے، ہمارے پاس آئین میں کمیشن بنانے کا اختیار نہیں ہے، کمیشن بنانے کا اختیار سرکار کا ہے، ہم نے مشورہ کیا اور نام دیے آج کی سماعت نمٹاتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 29 اپریل کو سماعت کا آغاز دوبارہ کریں گے اور روزانہ کی بنیاد پر اس کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے جس کے بعد کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی گئی.
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات