پاکستان میں ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 11 اپریل 2024 20:20

پاکستان میں ایکس تک رسائی مشکل، وی پی این ڈاؤن لوڈز میں اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2024ء) top10vpn.com کے مطابق یہ اضافہ 19 فروری کو 131 فیصد رہا اور دوسرے دن یہ اضافہ تقریباً 91 فیصد کے گراف پر آگیا اور فروری کے اختتام پر 80 کے گراف پر چلا گیا۔

جب جب پاکستانی حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگائی ہے، تب تب اس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر نو مئی 2023 ء کی ہنگامہ آرائی کے بعد پاکستانی حکام نے سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور ٹوئٹر کو بند کر دیا، تو بھی ملک میں وی پی این سافٹ ویئر کے ڈاؤن لوڈز میں ایک مرحلے پر 13 گنا سے بھی زیادہ تک کا اضافہ ہو گیا تھا۔

لاکھوں لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا

ڈی ڈبلیو نے اس حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں سے بات چیت کی جس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا یہ ماننا تھا کہ ان کے کارکنان نے ایکس پہ پابندی کے بعد وی پی این ڈاؤن لوڈ کیا ہے۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی کے ایک رہنما فیصل شیر جان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لاکھوں کی تعداد میں ہمارے کارکنان اور حمایتیوں نے وی پی این ڈاؤن لوڈ کیا ہے کیونکہ حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے حالانکہ وزیراعظم اس پابندی کے باوجود ایکس کو استعمال بھی کر رہے ہیں اور اس پر اپنے پیغامات بھی لوڈ کر رہے ہیں۔

فیصل شیر جان کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں وی پی این کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے لوگوں کو روکے۔

ماضی کی پابندیاں

واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ستمبر 2022 ء میں پبلک سیکٹر، پرائیویٹ سیکٹر، سفارت خانوں اور فری لانسرز سے یہ کہا تھا کہ وہ 31 اکتوبر تک وی پی این کے استعمال کے لیے خود کو پی ٹی اے سے رجسٹرڈ کرائیں۔

پی ٹی اے نے اسی برس جون میں سب سے پہلے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا تھا کہ وہ وی پی این کے استعمال کے لیے رجسٹریشن کرائیں۔ پی ٹی اے رجسٹریشن کے بغیر اس کے استعمال کو قوائد کے خلاف قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ وی پی این کے استعمال سے صارفین ان ویب سائٹس تک بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جن پر حکومت نے پابندی لگائی ہو۔ اس سے وہ محفوظ طریقے سے ای میل بھی بھیج سکتے ہیں۔

بہت سارے فری لانسرز، کاروباری افراد، خصوصاً اکاؤنٹس سے متعلق پروفیشنلز، اس کو استعمال کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیونکہ بہت سارے وی پی این فری ڈاؤن لوڈ کی شکل میں موجود ہیں اس لیے عوام کی اکثریت پی ٹی اے سے رجسٹر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی ماہر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ بہت سارے فری لانسرز سافٹ ویئر ہاوسیز میں کام کرنے والے افراد اور بہت سے فائننشل سیکٹر میں کام کرنے والے بڑی تعداد میں اس وقت وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔

بہت سارے افراد کاروبار اور مارکیٹینگ کے لیے بھی ایکس کو استعمال کرتے ہیں۔ فہد ابدالی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومتی پابندیوں کی وجہ سے ان لوگوں کا کام متاثر ہورہا ہے۔ تو ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس پابندی کی وجہ سے ڈاؤن لوڈ میں یقیناً بہت اضافہ ہوا ہے۔‘‘

فہد ابدالی کے مطابق اس کی اصل تعداد کا اندازہ مشکل ہے کیونکہ یہ ڈیٹا مختلف وی پی این کمپنیوں کے پاس ہوتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور ڈپٹی میئر سکھر محمد ارشد مغل کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں وی پی این استعمال کر رہے ہیں۔ ارشد مغل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ظاہر ہے حکومت نے اس پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے ہمارے کارکنان سمیت بہت سارے لوگ اس کو استعمال کر رہے ہے۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی مشہور کاروباری شخصیت امجد اللہ خان کا کہنا ہے کہ بزنس کمیونٹی اس پابندی پر پریشان ہے۔

امجد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' پہلے ملک میں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی۔ اب حکومت نے ایکس کی بھی لوڈ شیڈنگ شروع کردی ہے اور اس پر پابندی لگادی ہے۔‘‘

کاروباری افراد اس پابندی سے پریشان ہیں۔ ''پروفیشنلز اور کاروباری افراد اس وجہ سے وی پی این بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ کچھ سیاسی خبروں کے لیے بھی ایسا کررہے ہیں کیونکہ سیاست کا بھی کاروبار پر بہت اثر ہوتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے پی ٹی اے کے حکام سے متعدد بار رابطہ کیا لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور نہ ہی انہوں نے تحریری سوالات کے جوابات بھیجے۔