اسرائیلی کابینہ میں اختلافات برقرار‘حملے کے جواب میں ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے پر جزوی طور پر اتفاق ہوگیا. اسرائیلی ذرائع ابلاغ

کوئی بھی عرب یا غیرعرب مسلمان ملک ایران کے خلاف اسرائیل کو اپنی فضائی حدودیا سرزمین فراہم کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اگر ایران پر کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے تو امریکا کے اتحادی مسلمان ملکوں کو اپنے اہل تشیع شہریوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا.امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 15 اپریل 2024 23:21

اسرائیلی کابینہ میں اختلافات برقرار‘حملے کے جواب میں ایرانی سرزمین ..
تل ابیب/واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15 اپریل۔2024 ) اسرائیل کی جنگی کابینہ طویل بحث مباحثے کے بعد جزوی طور پر ایران پرجوابی حملہ کرنے پر متفق ہوگئی ہے جبکہ بعض مبصرین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اپنی اس موقع کو اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں . ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق کابینہ میں اس بات پر مکمل اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا کہ ایران کے حملے جواب کس طرح دیا جائے؟ تاہم حملے کے جواب میں ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے پر جزوی طور پر اتفاق ہوگیا ہے اس کا طریقہ کار کیا ہو گا اس بارے میں وزیراعظم نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے.

(جاری ہے)

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کوجوابی کارروائی کے لیے ممکنہ آپشنز پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے کابینہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسرائیل کو ایران کے براہِ راست حملے کا جواب دینا چاہیے تاہم ایسے کسی اقدام کے وقت اور اس کی شدت کے بارے میں اختلافِ رائے پایا گیا. اسرائیل کے وزیردفاع یوو گیلنٹ نے ایران کے خلاف علاقائی اتحاد کی تشکیل کا عندیہ دیا ہے لیکن کسی فوری کارروائی کا اعلان نہیں کیا مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایران کے خلاف کسی بھی جوابی کارروائی کی شدت کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے حملے سے کتنا نقصان ہوا ہے چونکہ ایران کے ڈرونز اور میزائل حملوں سے تاحال اسرائیل معمولی نقصان ہوا ہے اور کسی سویلین یا فوجی اہل کار کو بھی نقصان نہیں پہنچا ہے اس لیے اس کے اتحادی بھی اسے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں.

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں مشرقِ وسطیٰ کے سیکیورٹی امور کے ماہر جوناتھن پینی کوف کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے لیے بہترین آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایران کی سرزمین پر کسی ہدف پر محدود نوعیت کا حملہ کریں جس میں ہونے والا نقصان بھی محدود ہو ایسے کسی کارروائی کی صورت میں ایران کوئی ردعمل نہیں کر سکے گا پینی کوف کا کہنا ہے کہ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسرائیل اہم ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنانے سمیت کوئی انتہائی شدید اقدام کرے.

معروف امریکی جریدے ”فارن پالیسی“ میں سینٹر فور اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے سینئر فیلو ڈینیئل بیمین اور امریکن انٹر پرائز کے سینئر فیلو کینیتھ ایم پولاک کا کہناہے کہ اسرائیل پر ایران کا حملہ ناکام ثابت ہوا ہے جس کی وجہ سے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسرائیل کوئی جوابی کارروائی کرے اس کی ایک بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل کی فوج پہلے ہی غزہ میں جاری حماس کی جنگ میں پوری طرح مصروف ہے اور اسرائیل واضح اشارے دے چکا ہے کہ وہ امریکہ سمیت بین الاقوامی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر رفح میں اپنی کارروائی مکمل کرے گا غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کی حمایت میں کمی آئی ہے اور یہی رجحان امریکہ کے اندر بھی دیکھا گیا ہے اس کے ساتھ ہی خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل بھی تعطل کا شکار ہو گیا ہے.

ان کا کہنا ہے کہ جنگ اور اس کے لیے ریزرو فوج کو میدان میں اتارنے کی وجہ سے دفاعی اخراجات اس قدر بڑے ہیں کہ اسرائیل کی معیشت کو ابھی اس سے دھچکا لگا ہے دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں اسرائیل اپنے دفاع کو درپیش مسائل میں اضافہ کرنے کے بجائے انہیں کم کرنا چاہے گا جب کہ عام اسرائیلی شہری بھی معمول کی زندگی کی طرف واپس آنا چاہتے ہیں.

ان کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی میں بھی اسرائیل کو تکنیکی سطح پر بھی بہت سے اہم باتوں کو مدِنظر رکھنا ہو گا اگر اسرائیل جوابی کارروائی میں ایران پر میزائل حملہ کرتا ہے تو اس کے لیے اسے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود کا استعمال کرنا ہو گا اردن نے اپنی حدود سے اسرائیل کی جانب لانچ کیے گئے ایران ڈرونز اور میزائل کو مار گرایا تھا لیکن کسی بڑے حملے کے لیے اردن کی فضائی حدود پار کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس سے اسرائیل خود بھی گریز کرنا چاہے گا.

سعودی عرب کے بارے میں بھی اس کی حکمت عملی یہی ہونی چاہیے کیوں کہ ایسے کسی اقدام کی صورت میں ریاض کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے اسرائیل کے فضائی یا میزائل حملوں کے لیے دوسرا راستہ عراق اور ترکیہ کی فضائی حدود سے گزرتا ہے جو بہت طویل ہے ترکیہ مضبوط دفاعی قوت ہے اور اپنی فضائی حدود کو استعمال کرنے سے روک سکتا ہے ادھر شام میں بھی روس کا ایئر ڈیفینس سسٹم موجود ہے ڈینیئل بیمین امریکن اور کینیتھ ایم پولاک کے مطابق یہ رکاوٹیں اسرائیل کو ایران کے خلاف کارروائی سے روک نہیں سکتیں لیکن ایسے کسی اقدام کو اس کے لیے انتہائی پیچیدہ بنا دیتی ہیں اس لیے امکان یہی ہے کہ اسرائیل جوابی کارروائی کے طور پر شام، لبنان، عراق اور یمن میں ایرانی اہلکاروں اور عسکری تنصیبات کے خلاف اپنی کارروائیوں کا دائرہ مزید بڑھا دے.

بعض مبصرین کے مطابق اسرائیل کو اپنی فوج کا اعتماد بحال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی کارورائی کرنا پڑے گی اس کے علاوہ نیتن یاہو کی سیاسی ساکھ کا بھی مسلہ ہے ان کی مقبولیت میں انتہائی کمی آئی تھی اور ان سے مستعفی ہونے کے مطالبات کیئے جارہے تھے اس لیے سیاسی اعتبار سے ایرانی حملوں نے اسرائیلی وزیراعظم کو نئی سیاسی زندگی دی ہے. مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران نے ڈرونز اور میزائل بھیج کر اپنی قوت کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن یہ بہت محتاط اقدام تھا اور اس کے لیے ہتھیاروں کے انتخاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران نے تنازع کی شدت سے متعلق امکانات کو پیش نظر رکھا ہے بین الاقوامی جریدے ”فارن پالیسی“ کے مطابق اس کارروائی میں ایران کی اتحادی لبنانی ملیشیا حزب اللہ نے بھی حصہ نہیں لیا کیوں کہ اس کی جانب سے ہونا والا کوئی حملہ کسی بڑے تصادم کی بنیاد بن سکتا تھا ایران انتہائی اہم اہداف کے لیے ہی حزب اللہ کا کارڈ استعمال کرتا ہے.

جریدے کے مطابق غزہ کی صورتِ حال کی وجہ سے اسرائیل کو پہلے ہی عالمی سطح تنقید کا سامنا ہے اس لیے بھی ایران نے کوئی ایسی کارروائی نہیں کی جس میں اس کا بھاری جانی و مالی نقصان ہو کیوں کہ ایسی صورت میں اسرائیل پر غزہ میں مفاہمت کے لیے بڑھنے والا دباﺅ ہمدردی میں تبدیل ہو جاتا ان کا کہنا ہے کہ ایران کی حکومت کو معاشی چیلنجز کے ساتھ بڑھتے ہوئے احتجاج اور بلوچ قوم پرستوں کی مزاحمت کا سامنا ہے ان حالات میں کوئی بڑی کارروائی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی تھی اور اسرائیل کے ساتھ کسی بڑے تصادم کی صورت میں لامحالہ امریکہ کو بھی اس کی حمایت کے لیے آگے آنا پڑتا اس لیے ایران نے صرف خطے میں اپنی پراکسیز کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے یہ نپا تلا حملہ کیا ہے.

ویشلر کا کہنا ہے کہ غزہ میں شروع ہونے والی جنگ سے ایران کا جوہری پروگرام’ ’فرنٹ پیج“ سے ہٹ گیا ہے اور اس پر ہونے والی پیش رفت ان مراحل سے آگے بڑھ چکی ہیں جنہیں پہلے ناقابل قبول قرار دیا جاتا تھا ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ایران نے حزب اللہ کو کسی بڑے خطرے میں ڈالنے سے گریز کیا ہے اور اسے اپنے جوہری پروگرام کے لیے ڈیٹرنس کے طور پر استعمال کرتا رہے گا مبصرین کے مطابق امریکا مسلمان اتحادی ملک سنی مسلمان ہیں جبکہ شیعہ مسلک کے مسلمانوں کے لیے ایران کی بہت زیادہ مذہبی حیثیت اور اثرورسوخ ہے اس لیے اگر ایران پر کوئی بڑا حملہ ہوتا ہے تو امریکا کے اتحادی مسلمان ملکوں کو اپنے اہل تشیع شہریوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اس لیے کوئی بھی عرب یا غیرعرب مسلمان ملک حتی کہ انڈونیشیا یا بھارت جیسا ملک بھی اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے اہل تشیع شہریوں کو ایران کی مدد کے لیے جانے سے روکے کیونکہ بہت سارے عرب ملکوں کی سرحدیں عراق یا شام سے ملتی ہیں اس کے علاوہ پاکستان ‘افغانستان کے راستے بھی ایران جانے کے لیے بہت ساری سرحدی گزرگاہیں ہیں جو اسمگلنگ کے لیے استعمال ہوتی ہیں .

مبصرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں عراق ‘شام اور یمن میں ایرانی کاروائیوں نے مختلف مسلمان ممالک کے اہل تشیع نوجوانوں نے حصہ لیا جس کے شواہد خود ایران نے تہران میں اجتماعی جنازوں میں دیئے لہذا واشنگٹن کے اتحادی یا اسرائیل کے حامی مسلمان ملکوں کے لیے یہ قابل عمل نہیں ہوگا کہ وہ ایران کے خلاف کسی فوجی کاروائی میں کھل کر مدد فراہم کریں یہ مدد معلومات کے تبادلے‘ انٹیلی جنس‘یا نگرانی تک تو ہوسکتی ہے مگر کسی ملک کے لیے اسرائیل کو اپنی فضائی حدوداستعمال کرنے کی اجازت دینا ممکن نہیں ہوگا اور کسی بھی مسلمان ملک کی فضائی حدوداستعمال کیئے بغیراسرائیل ایران کی سرزمین پر حملے کو انجام نہیں دے سکتا.