وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ نواز شریف کا اپنا تھا، خرم دستگیر

جن کی جو نشستیں تھیں عوام نے ان کو واپس کر دیں،پاکستان کو ترقی، خدمت اور روزگاری کی سیاست پر ڈالنا ہے، ثابت کریں گے سخت فیصلے لے کر ملک کو پٹڑی پر ڈال سکتے ہیں، نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو

منگل 23 اپریل 2024 20:50

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اپریل2024ء) مسلم لیگ (ن) کے رہنماء خرم دستگیر نے کہاہے کہ وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ نواز شریف کا اپنا تھا، جن کی جو نشستیں تھیں عوام نے ان کو واپس کر دیں،پاکستان کو ترقی، خدمت اور روزگاری کی سیاست پر ڈالنا ہے، اس بات کو ثابت کریں گے کہ سخت فیصلے لے کر ملک کو پٹڑی پر ڈال سکتے ہیں۔۔نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگوکرتے ہوئے لیگی رہنماء انجینئر خرم دستگیر نے کہا کہ ہمیں 2011ء سے ایک فاشسٹ حملے کا سامنا ہے، انہوں نے 26دن کا دھرنا دے کر چین کے صدر کا دورہ موخر کروایا۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ پشاور سے اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے، ان کو کسی طرح سے منایا جا سکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے، ان کا جواب سیاسی طور پر پارلیمان اور پارلیمان سے باہر دینا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ضمنی انتخاب میں ووٹ پاکستان کی تعمیر اور استحکام کیلئے ملا ہے ،ہم کچھ حد تک مزاحمت کو پسند کرتے ہیں جس سے ہمیں نکلنا ہے، ہم نے پاکستان کو ترقی، خدمت اور روزگاری کی سیاست پر ڈالنا ہے، اس بات کو ثابت کریں گے کہ سخت فیصلے لے کر ملک کو پٹڑی پر ڈال سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی میں 224ووٹ حکمران اتحاد نے حاصل کئے۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور شہباز شریف میں ورکنگ ریلیشن قائم رہتی ہے تو حکومت قائم رہے گی، توقع ہے یہ حکومت اور پارلیمان دونوں مدت پوری کریں گی۔انہوں نے کہاکہ فاشسٹ حکومت کے دور میں پارلیمان میں بل پاس کروانے کیلئے تیسرے فریق کی مدد لی جاتی تھی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جن کی جو نشستیں تھیں عوام نے ان کو واپس کر دی ہیں اور ہمیں پارٹی کی طرف سے کلیئر اور واضح ہدایات تھیں کہ نوازشریف ہی وزیراعظم کے امیدوار ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتخابات کے بعد پارٹی کے اعلی فورمز کا کوئی اجلاس نہیں ہوا ہے۔ مختلف آوازیں میڈیا میں نظرآرہی ہیں جن کو پارٹی کے اندر بات کرنی چاہئے تھی، اگر کسی کو اختلاف ہے تو پارٹی کے فورمز پر اظہار کرنا چاہئے۔انہوںنے کہا کہ وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ نواز شریف کا اپنا فیصلہ تھا، پارلیمان میں ہوں یا نہ ہوں ہم سب کو پارٹی اور حکومتوں کی مضبوطی کے لیے کوشش کرنی چاہئے۔