وزیر اعظم کی کراچی چیمبر کے وفد سے ملاقات

وفاقی وزراء، سیکرٹریز کو تبادلہ خیال کی ہدایت، وزیراعظم یکم مئی کو ذاتی طور پر نتائج کا جائزہ لیں گے

بدھ 24 اپریل 2024 21:40

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 اپریل2024ء) وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی چیمبر کی جانب سے اجاگر کی گئی شکایات سننے کے بعد فوری طور پر وفاقی وزاء اور تمام متعلقہ وفاقی سیکریٹریز کو کے سی سی آئی کے ساتھ اجلاس بلانے کی ہدایت کی ہے تاکہ تاجر برادری کو درپیش مسائل کے حل پر متفق ہونے کے لیے وسیع پیمانے پر بات چیت کی جاسکے جبکہ وہ بذات خود بات چیت کے نتائج کا جائزہ لیں گے اور اسی کے مطابق یکم مئی کوریلیف کا اعلان کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے وفد کے ساتھ بدھ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔وفد کی قیادت چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا اور صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ نے کی۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نے ملکی معاشی ترقی اور پیداوار میں رکاوٹ بننے والے متعدد مسائل سے آگاہ کرنے پر کراچی چیمبر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سے کہا کہ وہ وزراء اور سیکرٹریز کے ساتھ ملاقاتوں کو مربوط کریں تاکہ کراچی کی پریشان حال تاجر برادری کو فوری ریلیف فراہم کیا جاسکے۔

آپ کوئی بھی مسئلہ درپیش میرے نوٹس میں لائیںکیونکہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں تاجر برادری کو زیادہ سے زیادہ ریلیف اور سازگار کاروباری ماحول فراہم کروں۔ انھوںنے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو متنازعہ ایس آر او 350 کومؤخر کرنے کے ساتھ ساتھ کسٹمز ریبیٹ، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس ریفنڈز، ڈی ایل ٹی ایل وغیرہ کے تمام زیر التواء ادائیگیوں کے اجرء کی بھی ہدایت کی۔

وزیراعظم نے چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا کی جانب سے گیس اور بجلی کے ناقابل برداشت نرخوں پر اظہار تشویش کے جواب میں گیس و بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے سے تاجر برادری کو درپیش مشکلات کا سخت نوٹس لیا۔انہوں نے توانائی کے نرخوں کو مسابقتی ممالک کے برابر لانے کے لیے کے سی سی آئی کی تجاویز پر مناسب غور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کے نرخ ریجنل ممالک کے مقابلے میں زیادہ رہے تو برآمدات بڑھانے کا خواب کبھی حقیقت میں نہیں بن سکتا لہذا صنعتوں کو مضبوط کرتے ہئے برآمدات کو بڑھانا ہوگا لہذا انھوں نے وزیر توانائی کو احکامات جاری کئے کہ تاجر برادری کو درپیش مشکلات کے حل کے لئے وہ کسی قسم کی موئثر حکمت عملی متعارف کرائیں ۔ کراچی میں پانی کی شدید قلت پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کے فور منصوبے کے لیے فنڈز کی اشد ضرورت ہے جو عرصہ دراز سے زیر التوا ہیں جو وعدوں کے مطابق فراہم کئے جائیں گے۔

انہوں نے تاجر برادری پر زور دیا کہ وہ حکومت کے ساتھ ہاتھ ملا کر معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے اجتماعی کوششیں کریں۔شہباز شریف نے بلند شرح سود پر اظہار تشویش کے جواب میں کہا کہ ہم آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ہیں اور انتہائی مشکل صورتحال میں ہیں تاہم انہوں نے وزیر خزانہ سے کہا کہ وہ اس معاملے پر کام شروع کریں کہ شرح سود کو کیسے کم کیا جائے کیونکہ اب مہنگائی کم ہوئی ہے۔

چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے اپنی پریزنٹیشن میں کہا کہ اگرچہ وزیراعظم برآمدات کو دُگنا کرنے اور کاروباری لاگت کم کرنے کے حوالے سے صنعت کو سپورٹ کرنے کے خواہشمند ہیں لیکن موجودہ حالات میں یہ ناممکن نظر آتا ہے اور ہمیں خدشہ ہے کہ گیس و بجلی کی بدولت کاروبار کرنے کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے ہمارے حریف پاکستان کے آرڈرز حاصل کر لیں گے۔

یہ بات حیران کن ہے کہ ہم برآمدات کو بڑھانا چاہتے ہیں اور مقامی مینوفیکچرنگ کو بڑھانا چاہتے ہیں لیکن ہم دوسرے شعبوں کو دی جانے والی کراس سبسڈیز کو شامل کرکے قیمت میں اضافہ کر رہے ہیں جس سے یہ گیس ٹیرف انڈسٹریل ہیٹنگ کے لیے 1466 روپے سے 2600 روپے اور کیپٹیو پاور کے لیے 3100 روپے ہو چکا ہے۔انہوں نے بتایا کہ چھ ماہ قبل گیس کے نرخ 1150 روپے اور 1350 روپے تھے جو چھ ماہ میں تین گنا بڑھ چکے ہیں۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی مارکیٹ میں موجودہ حالات میں کوئی بھی کاروبار اس قسم کے اضافے کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہی انڈسٹری بغیر کسی سبسڈی کے گیس کی سو فیصد قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔ ہمیں کوئی سبسڈی نہیں چاہیے۔ ہم کسی دوسرے شعبے کو سبسڈی دینے میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ صنعت و دیگر شعبوں کو سبسڈی دیے بغیر گیس کی اصل قیمت وصول کرے۔

انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ حکومت ایس ایس جی سی ایل پائپ لائنوں کے ذریعے صنعتوں کو درآمدی ایل این جی کی فراہمی کے لیے وہیلنگ چارجز متعارف کرانے پر غور کرے جو بین الاقوامی قیمتوں کی بنیاد پر باالخصوص برآمدی شعبوں کے لیے ٹیرف اور حساب کتاب کو مستحکم کرے گا۔زبیر موتی والا نے بجلی کے مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بے کار صلاحیت کی وجہ سے پاکستان پر کپیسٹی چارجز کا بوجھ پڑا جس کے نتیجے میں یہ صورتحال پیدا ہوئی جہاں فاضل بجلی نہ تو فروخت کی جاتی ہے اور نہ ہی صنعت کو کم نرخوں پر پیشکش کی جاتی ہے۔

یہ بے کار صلاحیت پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کے مسئلے کو بڑھا دیتی ہے۔اس لیے صنعتی شعبے کے لیے سطحی ٹیرف کو کم کرنے کے لیے ایک اسکیم متعارف کرانا ناگزیر ہے جس سے بجلی کی کھپت بڑھے گی جبکہ گیس کے استعمال سے گردشی قرضے کے مسئلے کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پورا ایس آر او 350 جو کہ متعدد چیلنجز کا باعث ہے اسے مؤخر کیا جانا چاہیے کیونکہ اس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

مزید برآں تمام زیر التواء کسٹمز ریبیٹس، سیلز ٹیکس ریفنڈ کلیمز آئندہ بجٹ میں یکمشت جاری کیے جائیں۔ڈی ایل ٹی ایل کو 2021 میں منقتع کر دیا گیا تھا جسے برآمدات کے لیے ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے اور سب سے ضروری ٹیکسٹائل پالیسی کے تحت پہلے ڈی ایل ٹی ایل ریفنڈز پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے واجبات جاری ہونا تھے لیکن وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں منظور شدہ ڈی ایل ٹی ایل کے فنڈز مختص نہیں کئے جو توجہ طلب ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ ماڈرن ویئر ہاؤسز اور لاجسٹکس سیکٹر کو صنعت کا درجہ دینے کی منظوری دیں تاکہ ویئر ہاؤسز اور لاجسٹکس کو ترقی دینے اور فروغ دینے کے لیے مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔انہوں نے ایس آئی ایف سی کی طرز پر حکومت سے متعلقہ تمام مسائل کے حل کے لیے صنعت کے لیے سنگل ونڈو متعارف کرانے کی اپیل بھی کی۔

کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ نے اپنے ریمارکس میں وزیراعظم سے اپیل کی کہ وہ درآمد کنندگان کی عدم موجودگی میں کسٹمز انٹیلیجنس، انفورسمنٹ کے اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی اور غیر منصفانہ چھاپوں کا نوٹس لیں جس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور یہ تاجروں کو ہراساں کرنے کی بھی ایک بڑی وجہ ہے جس کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے مشورہ دیا کہ رات کے اندھیرے میں چھاپے مار کر مال ضبط کرنے کے بجائے، کسٹم افسران احاطے کو سیل کر کے دن کی روشنی میں مالک کی موجودگی میں مال ضبط کریں۔نہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ کراچی یا اسلام آباد میں کم از کم ہر تین ماہ بعد سب سے بڑے شہر کی تاجر برادری سے باقاعدگی سے ملاقات کریں تاکہ درپیش مسائل کو فوری طور پر حل کیا جا سکے جو یقینی طور پر معیشت کے حق میں بہترین ثابت ہوگا۔