منصفانہ اجرتوں کے تعین کے لئے قومی ویج کمیشن تشکیل دیا جائے ، اسرار ایوبی

محنت کشوں کے لئے 20 گرام سونے کے مساوی منصفانہ اجرت مقرر کی جائے ،ڈائریکٹر سوشل سیفٹی نیٹ ورک

پیر 29 اپریل 2024 18:36

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2024ء) ماہر سماجی تحفظ اور محنت کشوں کی فلاحی تنظیم سوشل سیفٹی نیٹ، پاکستان کے ڈائریکٹر اسرار ایوبی نے یوم مئی کے موقع پر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بدترین مہنگائی کے پیش نظر ماضی کی طرح محنت کشوں کے لئے 20 گرام سونے کے مساوی منصفانہ اجرت مقرر کی جائے ۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1969 میں تیسری لیبر پالیسی کی سفارشات کی روشنی میں محنت کشوں کے لئے کم از کم اجرت 115روپے مقرر کی گئی تھی ۔

اس دور میں 10 گرام سونے کی قیمت 57 روپے تھی اور کم از کم اجرت کے لحاظ سے محنت کشوں کی قوت خرید 20 گرام سونا تھی ۔اب جبکہ محنت کشوں کی کم از کم اجرت 32 ہزار روپے ہے لیکن روپے کی بدترین گراوٹ اور تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے باعث محنت کشوں کے لئے 20 گرام سونا خریدنا تو درکنار اپنے کنبہ کا پیٹ پالنا ہی ناممکن ہو گیا ہے ۔

(جاری ہے)

اسرار ایوبی نے بتایا کہ عالمی بینک کے مطابق ملک کی افرادی قوت 8 کروڑ سے زائد محنت کشوں پر مشتمل ہے جو دنیا میں دسویں نمبر پر شمار ہوتی ہے ۔

لیکن اس حقیقت کے باوجود محنت کش طبقہ کی کسی سیاسی جماعت اور ایوان میں نمائندگی حاصل نہیں ہے ۔ ملک کے کروڑوں محنت کش شب و روز کی محنت و مشقت اور ملک کی معاشی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر نے کے باوجود درجہ سوم کے حقیر شہری ٹہرے ہیں ۔ حکومت کی کمزور عملداری کے باعث اکثر صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت 32 ہزار روپے پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا اور آجران کی اکثریت ڈھٹائی کے ساتھ محنت کشوں کی کم از کم اجرت کی چوری (Wage Theft) میں ملوث ہے۔

اسرار ایوبی نے مزید کہا کہ حکومت کا کام محض سالانہ بجٹ میں لکیر کے فقیر کی طرح کم از کم اجرت کا اعلان کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر سو فیصد عملدرآمد کرانا بھی حکومت کی لازمی ذمہ داری ہے ۔ محنت کشوں کو کم از کم اجرت کے لالی پاپ کے بجائے منصفانہ اجرت کی ضرورت ہے تاکہ ان کے کنبہ کی بنیادی ضروریات خوراک ، رہائش ، صاف پانی، بچوں کی تعلیم علاج و معالجہ اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات پوری ہوسکیں ۔

اس وقت حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں اور بدانتظامی کے نتیجہ میں صنعتوں اور کاروباری اداروں کی بندش کے باعث بے روزگاری اپنے عروج پر ہے، مصارف زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، بجلی ، پٹرول اور گیس کے بلوں میں ہوشربا اضافہ کے باعث اکثر محنت کشوں کواپنے کنبہ کی کفالت کے لئے دن میں دو اور تین نوکریاں کرنا پڑ رہی ہیں ۔ کام کے سخت دبا اور بے وقت کھانا کھانے کے نتیجہ میں ان کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔

محنت کش طبقہ تیزی کے ساتھ غربت کی لکیر کے نیچے جارہا ہے اور خیراتی دستر خوانوں پر اپنی بھوک مٹانے پر مجبور ہے ۔ اس مایوس کن صورت حال کے باعث معاشرہ میں شدید مایوسی ،ذہنی امراض، منشیات کے استعمال، چوری چکاری، لوٹ مار، قتل و غارت گری، خودکشی اور اجتماعی خودکشی جیسے ہولناک واقعات سامنے آ رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آجران اور سرمایہ داروں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیئے کہ ان کی تمام دولت اور وسائل کی اصل بنیاد محنت کشوں کی محنت کا ثمر ہے اور محنت کش طبقہ کی غربت کی ذمہ داری حکومت اور متمول طبقہ پر عائد ہوتی ہے ۔

اسرار ایوبی نے مزید کہا کہ پاکستان اب تک عالمی ادارہ محنت (ILO) کے محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے لئے 36 عہد ناموں (Conventions) کی توثیق کر چکا ہے ۔ جن میں کارکنوں کے لئے جبری مشقت کے خاتمہ، 8 گھنٹے کے مقررہ اوقات کار، انجمن سازی کی آزادی اور حقوق کے تحفظ، مساوی معاوضہ ، سہ فریقی مشاورت ، نوجوان کارکنوں کے لئے نائٹ شفٹ کے اوقات کار، ہفتے وار آرام اور مساوی سلوک قابل ذکر ہیں ۔

لیکن ملک کے اکثر صنعتی ، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں ملکی مزدور قوانین کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ محنت کے عہد ناموں پر بھی سرے سے کوئی عملدرآمد نہیں ۔اسرار ایوبی نے محنت کشوں سے کہا کہ کم از کم اجرت قانون کے مطابق صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں میں کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی یا تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں متاثرہ کارکن اپنی شکایت کے ازالہ کے لئے تحریری طور پر محکمہ محنت اور انسانی وسائل سے رجوع کرسکتے ہیں ۔

جس کے نتیجہ میں کم از کم اجرت قانون کی خلاف ورزی کرنے والے متعلقہ آجران کو جرمانے ، سزائے قید اور کاروبار کی بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسرار ایوبی نے حکومت کو تجویز پیش کی کہ محنت کشوں کے عالمی دن "یوم مئی" کے موقعہ پر ملک کی معاشی ترقی میں اپنا خون پسینہ بہانے والے ملک کے کروڑوں محروم کارکنوں کے لئے منصفانہ اجرت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے حکومت، آجران اور کارکنوں کے نمائندوں پر مشتمل سہ فریقی قومی ویج کمیشن تشکیل دیا جائے ۔