ہر سال ملک کو 10ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہے،ڈاکٹر اقرار احمد خاں

اگر مکئی اور چاول کے ماڈل پر جدید رحجانات بشمول ہائبرڈ سیڈ جیسی ٹیکنالوجی کو عام کیا جائے،زرعی ماہرین

منگل 30 اپریل 2024 12:32

ہر سال ملک کو 10ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہے،ڈاکٹر اقرار ..
مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اپریل2024ء) زرعی ماہرین نے کہا ہے کہ زراعت کو منافع بخش کاروبار بنانے اور غذائی استحکام کے حصول کے لئے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت معیاری بیج کو عام کاشتکار کی دہلیز تک پہنچانا ناگزیر ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں و دیگر چیلنجز کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی ترقی دادہ اقسام کو فروغ دے کر نہ صرف مقامی آبادی کی ضروریات کو احسن انداز سے پورا کیا جا سکے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ برآمد کر کے کثیرزرمبادلہ بھی کمایا جا سکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں منعقدہ تیسری پاکستان سیڈ کانگریس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ ہر سال ملک کو 10ارب ڈالر کی زرعی اجناس درآمد کرنا پڑتی ہے تاہم اگر مکئی اور چاول کے ماڈل پر جدید رحجانات بشمول ہائبرڈ سیڈ جیسی ٹیکنالوجی کو عام کیا جائے تو گندم، کپاس و دیگر اجناس میں بھی پیداواریت کے جمود کو توڑتے ہوئے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار صرف 30من تک محدود ہے جبکہ ترقی پسند کاشتکار 60 سے 70 من حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سویابین، موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی گندم، زیادہ پیداوار کا حامل گنا، کپاس و دیگر اجناس متعارف کروا رہی ہے جس سے زرعی خوشحالی کا نیا باب مرتب ہو گا۔ نیشنل سیڈڈویلپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرپرسن ڈاکٹر آصف علی نے کہا کہ اگر پاکستان کی 30من گندم کی فی ایکڑ پیداوار کو 50من پیداوار کا حصول ممکن بنا لیا جائے تو اس وقت 9ملین ہیکٹر پر گندم کی کاشت کو 6.5ملین ہیکٹر تک کر کے ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد باقی بچنے والی 2.5ملین ہیکٹر زرعی اراضی دوسری فصلات کی پیداوار کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔

انہوںنے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دے کر معیاری بیج کی تیاری اور ترسیل کے لئے اقدامات عمل میںلانا ہوں گے۔ انہوںنے کہا کہ ہائبرڈ سیڈ کی وجہ سے انڈیا 31.8ملین بیلز کپاس جبکہ پاکستان 8.35ملین بیلز تک حاصل کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیڈاتھارٹی کے تحت معیاری بیج کی تیاری اور اس کو کاشتکار تک پہنچانے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

پرووائس چانسلر/ڈین کلیہ زراعت ڈاکٹر محمد سرور خاں نے کہا کہ معیاری بیج زیادہ پیداوار کا ضامن ہوتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ زرعی یونیورسٹی میں وفاقی وزارت برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے تعاون سے سیڈ سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کے تحت ماڈل سیڈ ریسرچ اور آؤٹ ریچ سٹیشن کو بلوچستان اور بالائی پنجاب میں قائم کیا جائے گا جس میں بہترین بیج پر تحقیق اور ٹیسٹنگ سہولیات کی بدولت فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے گا۔

انہوںنے کہا کہ ہماری بنیادی فصلات کی پیداوار جمود کا شکار ہے جس کو توڑنے کے لئے قابل عمل اور جدید رحجانات کو پروان چڑھانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی کی تیار کردہ گنے کی دو نئی اقسام کاشتکاروں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں سنگ میل ثابت ہوں گی۔ فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد عظیم خان نے کہا کہ ہم ہائبرڈ سیڈ ٹیکنالوجی میں دنیا کے مقابلے میں پیچھے ہیں جس کے لئے مشترکہ کاوشیں عمل میں لانا ہوں گی۔

ڈاکٹر عرفان افضل نے کہا کہ مستحکم اکیڈیمیا انڈسٹری تعلقات، علم پر مبنی معیشت کے حصول اور زراعت کے میدان میں جدت کے لئے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک پرائیویٹ ماڈل کے تحت خوشحالی کی نئی راہیں میسر آ رہی ہیں اور ہمیں بھی اس نظام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ ڈنمارک آرہاؤس یونیورسٹی کی سینئر ریسرچر ڈاکٹر فیونا حے نے بیج میں نمی کے تناسب بارے سائنسی معلومات سے آگاہ کیا جبکہ اس موقع پر چیئرمین کراپ لائف پاکستان علی احمد، پاکستان ہائی ٹیک، ہائبرڈسیڈ ایسوسی ایشن کے چیئرمین شہزاد ملک، ڈاکٹر رابعہ فریدی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔