پ*ٹیکس اصلاحات پر عمل درآمد کیلئے سیاسی عزم ضروری ہی: معاشی ماہرین

میکرو اکنامک استحکام کیلئے متوازن ٹیکس نظام اور ریگولیٹری اقدامات کو آسان بنایا جائی: پالیسی مباحثہ

منگل 30 اپریل 2024 21:00

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 اپریل2024ء) اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پری بجٹ مشاورت میں ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کے لئے متضاد ٹیکس نظام میں اعتدال اور پیچیدہ ریگولیٹری اقدامات کو آسان بنایا جائے۔پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) نے ریونیو موبلائزیشن، انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ (آر ای ایم آئی ٹی) کے تعاون سے یہاں مقامی ہوٹل میں ’’جامع ترقی کے لئے ریونیو اور عوامی اخراجات کو بہتر بنانا‘‘ کے عنوان سے پری بجٹ مشاورت کا انعقاد کیا۔

اپنے استقبالیہ کلمات میں گورننس ایڈوائزر اور ٹیکس لیڈ، ریمٹ نے کہا کہ ترقی کے سفر میں برطانیہ پاکستان کا قریبی شراکت دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں عندیہ دیا ہے کہ اگر پاکستان کے معاشی نظام میں درست مداخلت اور اصلاحات کی جائیں تو 2057 تک پاکستان کی معیشت 5 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ریونیو موبلائزیشن پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں سے ایک ہے۔

ریمٹ کی ٹیم لیڈ حمید یعقوب شیخ نے شرکاء کو ریمٹ کے بارے میں بریفنگ دی انہوں نے بتایا کہ یہ غیر ملکی، دولت مشترکہ اور ترقیاتی دفتر کی مالی اعانت سے چلنے والا پروگرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات چیت کا مقصد حکومت کو اصلاحی اقدامات کے لئے رہنما خطوط فراہم کرنے کے لئے سفارشات اور حل پیش کرنا ہے۔سندھ ریونیو بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر واصف علی میمن نے کہا کہ اصلاحات اور ٹیکس اقدامات پر عمل درآمد کیلئے سیاسی عزم بہت ضروری ہے۔

آئی ایم ایف سے پروگرام حاصل کرنے کے عمل کے دوران اپنے طرز عمل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب دوہرے اعداد و شمار سے نیچے ہونے کی وجہ سے ٹیکسوں کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر بہت زیادہ پڑتا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی جائیں تاکہ بوجھ کی منصفانہ تقسیم کی جا سکے۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو پاکستان کے میکرو اکنامکس کے مطابق بنائے۔ انہوں نے مذید کہا کہیوٹیلٹی چارجز، گیس، بجلی اور پیٹرولیم چارجز میں اضافے سے ملکی صنعت بحرانوں میں ڈوبی رہے گی۔ پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کاشف ممتاز نے کہا کہ عوام کو ریونیو محکموں پر اعتماد کا فقدان ہے جو ٹیکس ادا کرنے کے کلچر کو فروغ دینے میں رکاوٹ ہے۔

اینگرو پاورجن قادرپور لمیٹڈ کے ڈائریکٹر قیصر بنگالی نے مباحثہ میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اداروں کی نجکاری کے دوران اسٹریٹجک عنصر پر غور کرنے کیلئے کوئی پالیسی نہیں ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مینجمنٹ کی نجکاری ضروری ہے نہ کہ اثاثوں کی کیونکہ مؤخر الذکر اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔ نجکاری کمیشن آف پاکستان کی ممبر بورڈ ناہید میمن نے کہا کہ ملک کو درمیانے اور طویل مدتی اہداف کے لئے ٹھوس نجکاری پالیسی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کو متحرک کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پیچیدہ ریگولیٹری ماحول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے کو ترجیح دینا بہت ضروری ہے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) پر صرف توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔آصف ہارون نے کہا کہ برآمدات اور ڈالر روپے کی برابری کے لحاظ سے ملک جمود کا شکار ہے۔

ٹیکس پالیسی نفاذ اورمعاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں میں فرق اور عوام میں اعتماد کا فقدان اس مسئلے کی راہ میں ایک سنگین رکاوٹ ہے، جسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اتھارٹی سیف جونیجو نے کہا کہ پاکستان کے 6 ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کم ہو رہے ہیں کیونکہ کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون (ای پی زیڈ) 3000 ایکڑ پر مشتمل ہے جو مرحلہ وار صرف 300 ایکڑ پر تیار کیا گیا ہے۔

تاہم جبل علی فری زون کے 104 ارب ڈالر کے مقابلے میں کراچی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون نے صرف 600 سے 700 ملین ڈالر کی آمدنی حاصل کی جو قومی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی آمدنی کا تقریبا 75 فیصد ہے۔محکمہ سماجی تحفظ کے سیکرٹری رفیق مصطفیٰ نے کہا کہ سرکاری اخراجات کی تاثیر میں سب سے بڑی رکاوٹ گورننس کا معیار اور صوبائی اور قومی ادارے ہیں جو پبلک فنانشل مینجمنٹ سسٹم، پروکیورمنٹ اور ہیومن ریسورس ہائرنگ سسٹم اور مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن (ایم اینڈ ای) سسٹم جیسے گورننگ پروسیس کا حصہ ہیں۔

دوسری بحث کے دوران سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا کہ سرمایہ کاروں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موثر خدمات اور تیز پروسیسنگ میکانزم کے لئے موجودہ ٹیکس ماڈلز میں تبدیلیاں لائی جائیں۔