دہشت گردی کے واقعات میں پھر اضافہ ،جانی نقصان میں کمی

سب سے زیادہ حملے خیبر پختونخواہ میں ہوئے، کے پی کے جنوبی اضلاع زیادہ متاثر رہے،پکس ماہانہ رپورٹ

بدھ 1 مئی 2024 18:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 مئی2024ء) مارچ میں کمی کے بعد اپریل 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی میں ایک بار پھر اضافہ ہوا، سب سے زیادہ حملے خیبر پختونخواہ میں ہوئے، کے پی کے جنوبی اضلاع زیادہ متاثر رہے۔ یہ تفصیلات اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں کیا۔

پی آئی سی ایس ایس کے اعدادوشمار کے مطابق، ملک میں اپریل کے دوران کم از کم 77 عسکریت پسندانہ حملے ہوئے، جس کے نتیجے میں 70 افراد مارے گئے جن میں 35 عام شہری اور 31 سیکورٹی فورسز اور چار جنگجو شامل تھے جبکہ 67 افراد زخمی ہوئے جن میں 32 عام شہری اور 35 سیکورٹی فورسز کے اہلکار شامل تھے۔ مارچ 2024 میں 56 عسکریت پسند حملے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 77 افراد ہلاک اور 67 زخمی ہوئے تھے جس کا مطلب ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں 38 فیصد اضافہ ضرور ہوا تاہم جانی نقصان میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی۔

(جاری ہے)

پکس (PICSS) کی سیکیورٹی رپورٹ مطابق ماہ اپریل میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے کئی ممکنہ حملوں کو ناکام بنایا اور کم از کم 55 مشتبہ جنگجوئوں کو ہلاک اور 12 کو گرفتار کیا جن میں چینی انجنئرز پر حملے میں ملوث جنگجو بھی شامل ہیں۔ اپریل میں جنگجو ئوں کے جانی نقصان میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔ اپریل میں ہونے والے کل حملوں میں سے 73 فیصد خیبرپختونخوا میں ہوئے جس میں اس کے قبائلی اضلاع بھی شامل ہیں، اس مہینے کے دوران صوبے میں 56 حملے رپورٹ ہوئے جن میں 26 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 17 عام شہریوں سمیت 43 افراد مارے گئے جبکہ 32 افراد زخمی ہوئے جن میں 19 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 13 عام شہری شامل ہیں۔

خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) سے زیادہ حملے اور جانی نقصان دیکھنے میں آیا۔ پختونخواہ کے بندوبستی اضلاع (settled districts) میں 31 حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 25 افراد مارے گئے اور 10 زخمی ہوئے۔ ڈی آئی خان، لکی مروت، بنوں اور ٹانک کے جنوبی اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ڈی آئی خان اور لکی مروت میں سات سات، بنوں میں چھ اور ٹانک میں دو حملے ہوئے۔

صوبے میں ہونے والے 71 فیصد حملے ان چار جنوبی اضلاع میں ہوئے جس سے وہاں کی بگڑتی صورت حال کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔۔ مزید برآں دارالحکومت پشاور میں چار حملے ہوئے جبکہ سوات، صوابی، چارسدہ، شانگلہ اور بٹگرام میں ایک ایک حملہ ہوا۔خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) میں، PICSS نے کم از کم 25 حملے ریکارڈ کیے، جن کے نتیجے میں 18 افراد مارے گئے اور 22 زخمی ہوئے۔

شمالی وزیرستان، باجوڑ اور جنوبی وزیرستان سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع تھے، جہاں بالترتیب نو، پانچ اور چار حملے رپورٹ ہوئے۔پکس کی رپورٹ کے مطابق، بلوچستان کو 16 حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں 21 افراد مارے گئے ہوئے جن میں 17 شہری اور چار سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شامل تھے جبکہ 31 افراد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے صوبے کے بلوچ علاقو ں میں ہوئے خاص طور پر جنوب اور جنوب مغربی اضلاع متاثر رہے خضدار سے تین، کیچ، کوہلو اور کوئٹہ سیدو دو، اور چمن، ڈیرہ بگٹی، دکی، قلات، خاران، مستونگ اور نوشکی سے ایک ایک حملے کی اطلاع ملی۔

پنجاب میں بھی عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا، مارچ میں ایک حملے کے مقابلے میں اپریل میں چار حملے رپورٹ ہوئے، جس کے نتیجے میں تین اموات ہوئیں۔ اسی طرح سندھ میں ایک حملہ ہوا جس کے نتیجے میں تین افراد مارے گئے۔رواں سال کے پہلے چار مہینوں میں، پاکستان میں کل 323 عسکریت پسندوں کے حملے ہوئے ، جن کے نتیجے میں 324 افراد مارے گئے اور 387 زخمی ہوئے۔