غزہ جنگ لبنان میں معاشی بحران بڑھنے کا سبب، یونیسف

UN یو این بدھ 1 مئی 2024 17:17

غزہ جنگ لبنان میں معاشی بحران بڑھنے کا سبب، یونیسف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 01 مئی 2024ء) اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث لبنان میں معاشی بحران سنگین ہو رہا ہے جبکہ انسانی امداد میں کمی کے نتیجے میں چار سال تک عمر کے بچے بھی کام کرنے پر مجبور ہیں۔

یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی عمل میں نہ آئی تو لبنان اور اسرائیل کے مابین بڑے پیمانے پر جنگ کا خدشہ ہے جس کے ملک میں 13 لاکھ بچوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

اسرائیل لبنان میں طویل فاصلوں تک فضائی حملے کر رہا ہے جن میں اب تک 8 بچوں سمیت 344 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

Tweet URL

ادارے کے ترجمان جیمز ایلڈر نے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملوں اور پھر غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیلی سرحد پر کشیدگی کے باعث لبنان کے 30 ہزار بچے بےگھر ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں لبنان میں پانی کی فراہمی کا ایک مرکز بھی تباہ ہو گیا ہے جس کے باعث تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو صاف پانی تک رسائی نہیں رہی۔ لڑائی کے نتیجے میں 23 طبی مراکز بھی بند ہو گئے ہیں جن سے 4,000 افراد مستفید ہوتے تھے۔

بچہ مزدوری، بھیک اور بیماری

غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے نئی معلومات کے مطابق لبنان کی غیررسمی خیمہ بستیوں میں رہنے والے یا بے گھر بچوں میں جسمانی کمزوری غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔

ملک میں ادارے کی نائب سربراہ ایٹے ہگنز نے بتایا ہے کہ گزشتہ 12 ماہ کے دوران غذائیت کی فراہمی کے پروگراموں میں بھیجے جانے والے بچوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ تاہم انسانی امداد میں کمی کے باعث ملک کے کئی حصوں میں اب یہ پروگرام بھی بند ہو چکے ہیں۔

وسائل اور خوراک سے محروم بہت سے خاندان اپنے بچوں سمیت بھیک مانگنے پر مجبور ہیں اور چار سال تک عمر کے بچے بھی کھیتوں میں کام کر رہے ہیں۔

ان بچوں کو روزانہ زیادہ سے زیادہ دو ڈالر آمدنی ہوتی ہے جس سے بمشکل ایک وقت کا کھانا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ترجمان کے مطابق، انہیں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کے پاس سات سال کی عمر کے ایسے بچے بھی لائے گئے جنہیں روزانہ کوڑا کرکٹ کی بوریاں اٹھانے کے باعث کمر میں تکلیف کا سامنا تھا۔

بے گھری اور تباہی

ایٹے ہگنز کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصہ میں لوگوں کی بڑی تعداد نے جنوبی لبنان سے نقل مکانی کی ہے۔

ان میں بیشتر لوگ کھیتی باڑی اور زیتون کی کاشت کرتے تھے اور اب اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں۔ ادارہ 2019 سے انہیں مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔ ان لوگوں کے کھیتوں میں گولہ باردو بکھرا ہے جس کے باعث ان کے لیے ازسرنو زرعی سرگرمیاں شروع کرنا آسان نہیں ہو گا۔

حالیہ کشیدگی سے پہلے بھی لبنان کو سنگین معاشی بحران کا سامنا تھا جس میں کووڈ۔

19 کے ہنگامی حالات اور سیاسی عدم استحکام کے باعث مزید شدت آنے سے ملک کی تقریباً نصف آبادی خط غربت سے نیچے چلی گئی۔ لبنان میں بچوں پر جنگ کے اثرات سے متعلق یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 10 لاکھ شامی پناہ گزین بھی موجود ہیں جن کی 90 فیصد آبادی کو شدید غربت کا سامنا ہے۔

امدادی وسائل کی قلت

ایٹے ہگنز نے بتایا ہے کہ بہت سے ممالک نے گزشتہ تین سے چار ماہ کے دوران لبنان کے لیے فراہم کی جانے والی امداد میں نمایاں کمی کر دی ہے۔

نتیجتاً یونیسف کو خدمات کی فراہمی کا سلسلہ روکنا پڑا ہے۔ اس میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کے نکاس میں دی جانے والی سہولیات بھی شامل ہیں۔

2011 میں شام کا بحران شروع ہونے کے بعد لبنان کے بہت سے سرحدی دیہاتوں نے 10 لاکھ سے زیادہ شامی پناہ گزینوں کو بھی جگہ دی تھی۔ اب یہ دیہات جنگی کارروائیوں سے متاثر ہیں۔

کشیدگی اور تناؤ بڑھنے سے ان دیہاتوں سمیت ملک کے جنوبی حصے میں بچوں کی زندگیاں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔

علاوہ ازیں، غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش تکالیف نے لبنان میں قائم پناہ گزین کیمپوں میں ابتر حالات کا سامنا کرنے والے ان کے ہم وطنوں کے دکھوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔