طالبان کے دوبارہ اقتدار سے افغانستان زمانہ قدیم منتقل ہوچکا،یو این سی ایچ آر

افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہیں،رپورٹ

بدھ 1 مئی 2024 18:52

ٖکابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2024ء) انسانی حقوق کے حوالے سے افغانستان کا ریکارڈ کبھی اچھا نہیں رہا،کمیونسٹ ہوں یا نام نہاد جمہوری قوم پرست یا پھر اسلام کے نام پر دہشت گردی کے سرپرست طالبان، ہر دور میں بنیادی انسانی حقوق کو کچلنا کابل کے حکمرانوں کی سرشت میں شامل رہا ہے۔افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہیں۔

یو این سی ایچ ا?ر کا کہنا ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان زمانہ قدیم میں منتقل ہو چکا ہے۔انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث افغان عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ سی ا?ر) نے افغانستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق طالبان کی جانب سے افغان عوام کو شدید جسمانی، ذہنی اور جنسی استحصال کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

طالبان کے قبضے کے بعد بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جن میں ماورائے عدالت قتل، انتقامی قتل، تشدد، ذلت آمیز سلوک، جبری گمشدگی، من مانی گرفتاریاں اور نظر بندی سر فہرست ہیں، رپورٹ کے مطابق افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے جسکے تحت 800 اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے سابق سرکاری اہلکاروں سے لے کر صحافیوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور اقلیتی برادریوں کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا۔جنوری 2022 سے جولائی 2023 کے درمیان اقوام متحدہ نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 1600 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے،گئے۔ نومبر 2022 اور اپریل 2023 کے درمیان، افغانستان میں اقوام متحدہ نے جسمانی سزاؤں کے 43 سے زائد واقعات رپورٹ کیے۔

طالبان رجیم میں 58 خواتین اور 274 مرد بشمول بچوں کو مختلف جرائم کی مد میں کوڑے مارے گئے۔طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے افغان میڈیا کو بھی بے انتہا پابندیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔اگست 2021 سے اب تک میڈیا کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے 245 مقدمات درج کیے گئے جن میں حراست اور جسمانی تشدد کے 130 مقدمات اور 61 صحافیوں کی گرفتاریاں شامل ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے تمام قوانین، قواعد اور پالیسیوں کو منسوخ کر دیا جسکے باعث افغانستان میں انتظامی اور عدالتی ڈھانچہ مسخ ہو چکا ہے،طالبان نے عدالتوں میں اپنے حامی ججوں کو تعینات کرنے کے ساتھ طالبان قیدیوں کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔

طالبان کی کابینہ محض مرد ارکان پر مشتمل ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان نے الیکشن کمیشن، پارلیمانی امور اور امن کی وزارت کو تحلیل کیا جس سے افغانستان میں امن کی صورتحال شدید بگڑ گئی۔آج افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ لاکھوں افراد کو خوراک اور پانی کی قلت کا سامنا ہے۔افغانستان پر قابض ہونے کے بعد طالبان نے بجٹ کا زیادہ تر حصہ دہشتگردی کے مقاصد کے لیے مختص کر رکھا ہے جبکہ 29.2 ملین سے زیادہ افغان شہری فوری طور پر انسانی امداد کے محتاج ہیں، اقوام متحدہ کے مطابق طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم سے روکنے کے ساتھ این جی اوز پر تعلیمی پروگرام فراہم کرنے پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے اورطالبان کی جانب سے نابالغ اور کم سن بچیوں کے والدین کو ان کی جبری شادی کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

قبضے کے بعد طالبان نے خواتین کے کام کرنے پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی ہے جس سے 60 ہزار سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں۔طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے صحت کا نظام بھی تباہ ہوا اور لڑکیوں میں خودکشی کی شرح میں سنگین حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔طالبان کی جانب سے اقلیتوں کو مسلسل ظلم و ستم، جبری نقل مکانی اور ٹارگٹ کلنگ کا سامنا ہے ،طالبان رجیم میں ہزارہ کمیونٹی کے 334 افراد ہلاک اور 631 زخمی ہوئے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق2021 سے 2022 کے درمیان چائلڈ لیبر کے 4,519 واقعات رپورٹ ہوئے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر اقوام متحدہ کی بارہا وارننگ کے باوجود طالبان ٹس سے مس نہیں ہوئے۔